کتابستان میں یہ مہینہ ہم خواتین مصنفات کے مہینے کے طور پہ منا رہے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی نصف آبادی عورتوں پہ مشتمل ہے لیکن ان میں سے بہت کم کو گھروں سے باہر نکل کے ملکی ترقی اور بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع مل پاتا ہے۔ عمومی طور پہ ہماری مستورات کی زندگیوں کا دائرہ کار گھراور اس سے متعلقہ معاملات کی حد تک محدود رہتا ہے اور یہی ان کی کل دنیا ہے۔ تاہم اس بات نے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے حوصلے پست نہیں کئے۔ جہاں اور جس حد تک موقع مل سکا ہے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ناول نگاری کی دنیا میں خواتین مصنفین کی ایک بڑی تعداد کا موجود ہونا ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں کی کھڑکیوں، روشندانوں اور دروازوں سے آنے والی روشنی اور نظر آنے والی دنیا کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے اور اپنا تخیل استعمال کرتے ہوئے ، نیز معاشرے کی قائم حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی موجودگی کا اظہار کیا ہے۔ خواتین ناول نگاروں نے اس ضمن میں ایک لمبا سفر طے کیا ہے جس کے ابتدائی دور میں ہمیں بشریٰ رحمن، سلمیٰ کنول، رضیہ بٹ جیسی نامور مصنفات ملتی ہیں اور اب عمیرا احمد، نمرا احمد، فرحت اشتیاق جیسے مشہور نام ملتے ہیں۔
ڈائجسٹوں میں چھپنے والے ان ناولوں کو نقاد ادبی درجہ نہیں دیتے۔ ان کے لئے ڈائجسٹی ادب جیسی اصطلاحات وجود میں آ گئیں جس کا مقصد انہیں کم تر درجے کی تخلیق گرداننا ہے۔ ڈائجسٹ میں چھپنے والے ناولوں کے موضوعات کی محدودیت اور فینٹسی اکثر زیرِ بحث رہتی ہے۔ عموماً ان کی زبان معیار کے اس درجے تک نہیں پہنچتی جہاں اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جائے اور یونیورسٹی کے طالبعلم اس پہ مقالے لکھیں۔ ہمیں ان باتوں سے اختلاف نہیں۔ یہاں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر مصنفات کے لکھے ناولوں کے موضوعات محدود ہیں اور زیادہ تر گھریلو زندگیاں ان کا موضوع ہیں، تو یہ مسئلہ ان مصنفات کا نہیں بلکہ ہماری نصف آبادی کی زندگی کا ہے جن کی زندگیاں گھروں تک محدود ہیں اور ان میں کھانے پکانے کی ترکیبوں، سگھڑ پنے، گھر اور سسرال کی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی نئی بات موجود نہیں۔ اگر ہم ان کہانیوں سے بےزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دراصل یہ بےزاری ان کہانیوں سے نہیں بلکہ اس معاشرتی نظام سے ہے جس کا ہم حصہ ہیں اور یہ ناول عکاس ہیں۔ تواتر سے لکھے جانے والے ان ناولوں کے موضوعات سالوں سے تبدیل نہیں ہو سکے۔ ناول نگاروں کی دوسری تیسری نسلیں آ گئی ہیں مگر کہانیاں جوں کی توں ہیں۔ ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور جب تک حالات میں بدلاؤ نہیں آتا ان ناولوں کے موضوعات میں بھی تبدیلی نہیں آ سکے گی ۔ یہ جمود جو ہمارے تانیثی ادب پہ طاری ہے وہ اس معاشرے کی آئینے میں نظر آنے والی وہ تصویر ہے جو صدیوں سے ساکت ہونے کے باعث اپنی خوبصورتی کھو چکی ہے۔ اس مہینے ہم ان تخلیقات کے متعلق بات کریں گے جو ہماری خواتین کے قلم سے وجود میں آئی ہیں۔
اک موسم دل کی بستی کا از رفعت ناہید سجاد
نام کتاب: اک موسم دل کی بستی کا
مصنفہ: رفعت ناہید سجاد
صنف: ناول، فکشن
صفحات: 272
رفعت ناہید سجاد پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔ انہوں ماس کمیونیکشن اور ہسٹری میں ایم اے کیا ہے۔ کینئرڈ کالج میں لیکچرر کے طور پہ خدمات انجام دینے کے بعد آپ کالج کی پرنسپل کے طور پہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آپ کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ آپ ایک طویل عرصے سے ناول اور افسانے لکھ رہی ہیں جو مختلف ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے مشہور ناولوں میں اک موسم دل کی بستی کا، چراغ آخر شب اور دستک شامل ہیں۔ رفععت ناہید سجاد وہ مصنفہ ہیں جن کے ایک ناول کے مطالعے نے ہم سے ان کے دیگر ناول و افسانے بھی پڑھوائے۔رفعت کے ناولوں میں سطحی پن نہیں پایا جاتا۔ ان کے کردار اعلیٰ اخلاق اور افعال کے حامل ہوتے ہیں۔ برے اور نامساعد حالات کا شکار ہونے کے باوجود وہ پستی میں نہیں گرتے۔ ان میں اعلیٰ ظرفی اور بڑا پن پایا جاتا ہے۔ رفعت ایک استاد ہیں اور تحریریں لکھتے ہوئے وہ کبھی اس مقام سے نیچے نہیں اتریں جو ایک استاد کے شایانِ شان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رفعت ناہید سجاد کی تحریریں ہماری پسندیدہ ہیں۔ ان کا لکھا افسانہ دستک اسی کی دہائی کے کراچی کی عکاسی کرتا ہے جب شہر میں بد امنی اور انتشار پھیلا ہوا تھا۔ آئے دن اخبارات میں پولیس مقابلوں کی خبریں آتی تھیں جن میں ڈاکوؤں کی موت کی اطلاع دی جاتی تھی۔ شہر میں چوری چکاری، لڑائی جھگڑے اور فسادات عام تھے۔ اس پس منظر میں میں دستک دل چھو لینے والی ایک مختصر تحریر ہے۔ جس کا مرکزی کردار بظاہر ایسی ہی کاروائیوں میں مشغول ہے۔ افسانے میں حالات و واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر ایک چھوٹی سی ملاقات کو مصنفہ نے ایک عمدہ لو اسٹوری میں تبدیل کیا ہے جس میں کوئی بھی عامیانہ پہلو نہیں۔ اس میں جہاں ایک لڑکی کی امید اور خوشیوں بھرے محسوسات ہیں وہیں دوسرے کردار کی انتہا درجے کی احتیاط ہے کہ کہیں کوئی اس لڑکی کو بھی مجرموں کا ساتھی نہ سمجھ لے۔ مصنفہ کے کچھ بھی جتائے بغیر کہانی کی حساسیت بھرپور طریقے سے امڈ کے آتی ہے ۔ رفعت صاحبہ کی کتابیں بک اسٹورز پہ بہت عام نہیں ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ اپنی کتابوں پہ توجہ دیں اور اپنی تحاریر پہ مبنی کتب مارکیٹ میں لے کر آئیں تاکہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کا مطالعہ کر سکے۔اور وہ مزید لکھیں کیونکہ ہم انہیں پڑھنا چاہتے ہیں۔آج ہم جس کتاب پہ بات کر رہے ہیں وہ رفعت کا لکھا ہوا ناول “اک موسم دل کی بستی کا” ہے۔ Continue reading “160-اک موسم دل کی بستی کا از رفعت ناہید سجاد” →