Book Review, Fiction, Pakistani literature, Romance

160-اک موسم دل کی بستی کا از رفعت ناہید سجاد

کتابستان میں یہ مہینہ ہم خواتین مصنفات کے مہینے کے طور پہ منا رہے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی نصف آبادی عورتوں پہ مشتمل ہے لیکن ان میں سے بہت کم کو گھروں سے باہر نکل کے ملکی ترقی اور بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع مل پاتا ہے۔ عمومی طور پہ ہماری مستورات کی زندگیوں کا دائرہ کار گھراور اس سے متعلقہ معاملات کی حد تک محدود رہتا ہے اور یہی ان کی کل دنیا ہے۔ تاہم اس بات نے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے حوصلے پست نہیں کئے۔ جہاں اور جس حد تک موقع مل سکا ہے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ناول نگاری کی دنیا میں خواتین مصنفین کی ایک بڑی تعداد کا موجود ہونا ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں کی کھڑکیوں، روشندانوں اور دروازوں سے آنے والی روشنی اور نظر آنے والی دنیا کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے اور اپنا تخیل استعمال کرتے ہوئے ، نیز معاشرے کی قائم حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی موجودگی کا اظہار کیا ہے۔ خواتین ناول نگاروں نے اس ضمن میں ایک لمبا سفر طے کیا ہے جس کے ابتدائی دور میں ہمیں بشریٰ رحمن، سلمیٰ کنول، رضیہ بٹ جیسی نامور مصنفات ملتی ہیں اور اب عمیرا احمد، نمرا احمد، فرحت اشتیاق جیسے مشہور نام ملتے ہیں۔

ڈائجسٹوں میں چھپنے والے ان ناولوں کو نقاد ادبی درجہ نہیں دیتے۔ ان کے لئے ڈائجسٹی ادب جیسی اصطلاحات وجود میں آ گئیں جس کا مقصد انہیں کم تر درجے کی تخلیق گرداننا ہے۔ ڈائجسٹ میں چھپنے والے ناولوں کے موضوعات کی محدودیت اور فینٹسی اکثر زیرِ بحث رہتی ہے۔ عموماً ان کی زبان معیار کے اس درجے تک نہیں پہنچتی جہاں اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جائے اور یونیورسٹی کے طالبعلم اس پہ مقالے لکھیں۔ ہمیں ان باتوں سے اختلاف نہیں۔ یہاں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر مصنفات کے لکھے ناولوں کے موضوعات محدود ہیں اور زیادہ تر گھریلو زندگیاں ان کا موضوع ہیں، تو یہ مسئلہ ان مصنفات کا نہیں بلکہ ہماری نصف آبادی کی زندگی کا ہے جن کی زندگیاں گھروں تک محدود ہیں اور ان میں کھانے پکانے کی ترکیبوں، سگھڑ پنے، گھر اور سسرال کی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی نئی بات موجود نہیں۔ اگر ہم ان کہانیوں سے بےزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دراصل یہ بےزاری ان کہانیوں سے نہیں بلکہ اس معاشرتی نظام سے ہے جس کا ہم حصہ ہیں اور یہ ناول عکاس ہیں۔ تواتر سے لکھے جانے والے ان ناولوں کے موضوعات سالوں سے تبدیل نہیں ہو سکے۔ ناول نگاروں کی دوسری تیسری نسلیں آ گئی ہیں مگر کہانیاں جوں کی توں ہیں۔ ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور جب تک حالات میں بدلاؤ نہیں آتا ان ناولوں کے موضوعات میں بھی تبدیلی نہیں آ سکے گی ۔ یہ جمود جو ہمارے تانیثی ادب پہ طاری ہے وہ اس معاشرے کی آئینے میں نظر آنے والی وہ تصویر ہے جو صدیوں سے ساکت ہونے کے باعث اپنی خوبصورتی کھو چکی ہے۔ اس مہینے ہم ان تخلیقات کے متعلق بات کریں گے جو ہماری خواتین کے قلم سے وجود میں آئی ہیں۔

اک موسم دل کی بستی کا از رفعت ناہید سجاد

نام کتاب: اک موسم دل کی بستی کا
مصنفہ: رفعت ناہید سجاد
صنف: ناول، فکشن
صفحات: 272
Aik mausam dil ki basti ka by Riffat Naheed Sajjad

رفعت ناہید سجاد پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔ انہوں ماس کمیونیکشن اور ہسٹری میں ایم اے کیا ہے۔ کینئرڈ کالج میں لیکچرر کے طور پہ خدمات انجام دینے کے بعد آپ کالج کی پرنسپل کے طور پہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آپ کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ آپ ایک طویل عرصے سے ناول اور افسانے لکھ رہی ہیں جو مختلف ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے مشہور ناولوں میں اک موسم دل کی بستی کا، چراغ آخر شب اور دستک شامل ہیں۔ رفععت ناہید سجاد وہ مصنفہ ہیں جن کے ایک ناول کے مطالعے نے ہم سے ان کے دیگر ناول و افسانے بھی پڑھوائے۔رفعت کے ناولوں میں سطحی پن نہیں پایا جاتا۔ ان کے کردار اعلیٰ اخلاق اور افعال کے حامل ہوتے ہیں۔ برے اور نامساعد حالات کا شکار ہونے کے باوجود وہ پستی میں نہیں گرتے۔ ان میں اعلیٰ ظرفی اور بڑا پن پایا جاتا ہے۔ رفعت ایک استاد ہیں اور تحریریں لکھتے ہوئے وہ کبھی اس مقام سے نیچے نہیں اتریں جو ایک استاد کے شایانِ شان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رفعت ناہید سجاد کی تحریریں ہماری پسندیدہ ہیں۔ ان کا لکھا افسانہ دستک اسی کی دہائی کے کراچی کی عکاسی کرتا ہے جب شہر میں بد امنی اور انتشار پھیلا ہوا تھا۔ آئے دن اخبارات میں پولیس مقابلوں کی خبریں آتی تھیں جن میں ڈاکوؤں کی موت کی اطلاع دی جاتی تھی۔ شہر میں چوری چکاری، لڑائی جھگڑے اور فسادات عام تھے۔ اس پس منظر میں میں دستک دل چھو لینے والی ایک مختصر تحریر ہے۔ جس کا مرکزی کردار بظاہر ایسی ہی کاروائیوں میں مشغول ہے۔ افسانے میں حالات و واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر ایک چھوٹی سی ملاقات کو مصنفہ نے ایک عمدہ لو اسٹوری میں تبدیل کیا ہے جس میں کوئی بھی عامیانہ پہلو نہیں۔ اس میں جہاں ایک لڑکی کی امید اور خوشیوں بھرے محسوسات ہیں وہیں دوسرے کردار کی انتہا درجے کی احتیاط ہے کہ کہیں کوئی اس لڑکی کو بھی مجرموں کا ساتھی نہ سمجھ لے۔ مصنفہ کے کچھ بھی جتائے بغیر کہانی کی حساسیت بھرپور طریقے سے امڈ کے آتی ہے ۔ رفعت صاحبہ کی کتابیں بک اسٹورز پہ بہت عام نہیں ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ اپنی کتابوں پہ توجہ دیں اور اپنی تحاریر پہ مبنی کتب مارکیٹ میں لے کر آئیں تاکہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کا مطالعہ کر سکے۔اور وہ مزید لکھیں کیونکہ ہم انہیں پڑھنا چاہتے ہیں۔آج ہم جس کتاب پہ بات کر رہے ہیں وہ رفعت کا لکھا ہوا ناول “اک موسم دل کی بستی کا” ہے۔ناول کے اہم کردار یوں ہیں؛

بیلا: یہ ناول کی مرکزی کردار ہے۔ بیلا شہر کی لڑکی ہے جس کی تعلیم بی اے ہے۔ اپنے والد کی وفات کی وجہ سے وہ ماسٹرز مکمل نہیں کر سکی۔ وہ بہادر اور حوصلہ مند لڑکی ہے جو کسی پہ بوجھ بننا پسند نہیں کرتی۔گرچہ اس کے پاس بینک میں کافی دولت موجود تھی لیکن اس نے ملازمت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اخبار میں ایک اشتہار نے اس کی توجہ کھینچ لی جس میں ایک دور دراز کے علاقے میں گھر سنبھالنے کے لئے ایک خاتون کی ضرورت تھی۔ بیلا نے اس نوکری کے لئے درخواست دے دی اور جواب مثبت آنے پہ وہ وہاں کے لئے روانہ ہو گئی۔

دانیال خان: یہ مرکزی مرد کردار ہے۔ یہ اس گھر کا مالک ہے جس کی دیکھ بھال کے لئے اشتہار دیا گیا تھا۔ دانیال خان، ایک قبائلی جاگیردار ہے۔

بےبے: یہ دانیال خان کی دور پار کی رشتہ دار ہیں جنہیں بیوہ ہونے کے بعد دانیال خان اپنے گھر لے آئے تھے۔ بے بے ہی دانیال خان کی بڑی ہیں جن کے گٹھنے کمزور ہو گئے ہیں اور وہ چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتی ہیں۔

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اک موسم دل کی بستی کا، ایک رومانوی ناول ہے۔ یہ بیلا اور دانیال خان کی کہانی ہے۔ بیلا ایک شہری لڑکی تھی جو اپنے والد کی وفات کے بعد گھر اور کاروبار سے محروم ہو جاتی ہے۔ کسی دوسرے پہ بوجھ نہ بننے کے لئے وہ قبائلی علاقے میں ایک گھر کی دیکھ بھال کی نوکری اختیار کر لیتی ہے۔ ناول میں اس قبائلی دنیا کو ہم بیلا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بیلا کے ساتھ قاری خود کو ایک دور دراز کے قبائلی علاقے میں پاتا ہے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ جہاں کا موسم شدید سرد ہے۔ جہاں کے نظارے خوبصورت ہیں اور جس کی فضا میں اخروٹ کے پھولوں کی خوشبو ہے۔ دوسری طرف دانیال خان قبائلی جاگیر دار ہیں جو بظاہر سخت مزاج ہیں۔ بےبے کے الفاظ میں؛
“دانیال اس قسم کے جاگیردار نہیں جیسے ان قبائلی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ وہ بات کرتے ہیں تو آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ناراض ہو رہے ہیں یا مذاق کر رہے ہیں۔ ان کا چہرہ ہمیشہ دو قسم کے تاثرات دیتا رہتا ہے۔ ان کی آنکھیں مسکراتی ہیں مگر چہرہ ظلم کی حد تک سنگین اور سنجیدہ ہے لیکن وہ ظالم نہیں۔ ہاں مگر روایت سے انحراف وہ بھی نہیں کر سکتے”۔

ناول میں دانیال خان کا رویہ بیلا کے لئے نا سمجھ میں آنے والا اور کنفیوزنگ تھا۔ ایک کے بعد ایک پیش آنے والے واقعات کے دوران وہ دانیال خان کا رویہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ ایک پزل کی مانند تھے جس کے حصے بیلا کے پاس نہیں تھے۔
دیکھو بیلا۔ گھر بھر میں اس واقعہ کا کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئے۔ گڑھی کی سیاست میں ایک بلٹ کا مطلب ایک بلٹ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے دس خون۔ خان گل، قیمت خان کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ورنہ وہ خون خرابہ مچا دیں گے۔ وہ ان کے دس آدمی کھڑے کھڑے بھون دیں گے اور ان کے آدمی ہمارے سو آدمی۔ یہ یہاں کی روایت ہے کہ ایک خون کا انتقام ہزاروں خون بہا کر نسلوں تک چلتا ہے”۔

مزید،
وہ بکھرے ہوئے پزل ہاتھ میں پکڑے کچھ گمشدہ لمحوں کی تلاش میں نامکمل سی تھی۔ ان لوگوں کی کسی سے دشمنی ہے؟ اور کیا دشمنی ہے؟
دانیال خان اپنی باتوں کو اتنے راز میں کیوں رکھتے ہیں۔ وہ بار بار حادثوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان حادثوں کی پردہ پوشی پر کیوں اس قدر اصرار کرتے ہیں؟شاید ساری رات بھی ان سوالوں کے جواب کے لئے ناکافی تھی۔

لیکن دانیال خان خود ان قبائلی روایتوں سے کس قدر متنفر ہیں اور کس حد تک ان کے خاتمے کے خواہاں ہیں، یہ انجام پہ جا کے سامنے آتا ہے اور ان روایتوں کے خلاف دانیال خان کی بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ جس سے دراصل مصنفہ کی ذہنی مضبوطی اور روایتوں کے خاتمے کی خواہش سامنے آتی ہے۔ جنہوں نے اپنے تخیل اور تحریر کے ذریعے ان روایتوں سے آزادی کی ایک راہ دکھائی ہے۔ یہی کسی معاشرے میں مصنف کا اصل کردار ہوتا ہے کہ وہ ذہنوں کو کھولنے میں مدد کرے، نئے راستے دکھائے اور امید کی کرن بن جائے۔ خاندانی روایتوں پہ بنیاد کرتا ہوا ایک ناول ہم نے پہلے بھی پیش کیا تھا جس کا عنوان تھا ماہی ماہی کوکدی میں۔ اس ناول کو ہم تصویر کشی کے زمرے میں رکھتے ہیں یعنی ایک ایسا ناول جس نے معاشرے کے ایک پہلو کی عکاسی کی ہے، لیکن بہتری کے لئے کوئی رستہ نہیں نکالا۔ ماہی ماہی کود دی، کے تبصرے میں ہم نے یہ لکھا تھا کہ ہماری خواہش تھی کہ اختتام پہ ہیروئن قربانی دینے کی بجائے کوئی بہتر حل نکال لیتی لیکن ناول میں ایسا نہ ہو سکا تھا۔ یہ خواہش البتہ ہماری ایک موسم دل کی بستی میں، کی قرأت کے دوران پوری ہو گئی جس میں دانیال خان نے روایتوں میں جکڑے ہونے کے باوجود ایک رستہ نکال ہی لیا تھا۔ ناول میں دانیال خان کا کردار شروع سے متاثر کن ہے، گرچہ بیلا ہمیشہ اس کے رویے سے نالاں اور خوبیوں سے انجان رہی۔ انجام پہ دانیال خان کی انفرادیت ابھر کے سامنے آئی اور یہ واضح ہوا کہ وہ کیوں خود کو نہ صرف بزدل قرار دیتے ہیں بلکہ اس بزدلی پہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
“جو اسلحہ حکومت نے آنکھوں سے دیکھا نہیں ہوتا، وہ ہم ہاتھوں سے استعمال کر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے انہیں چھوتے ہوئے خوف آتا ہے۔ میں پتا نہیں کیوں شرما جاتا ہوں۔ شاید خان گل اور قیمت خان ٹھیک سوچتے ہیں کہ میں بزدل ہی ہوں یا شاید۔۔۔” انہوں نے بہت دور دیکھا۔ بہت دیر سوچا۔”میں بزدل ہی ہوں”۔ انہوں نے حتمی فیصلہ بڑے فخر سے کہا تھا اور بےجھجک کئی مرتبہ دہرایا۔
“میں بزدل ہوں۔ میں بہت بزدل ہوں”۔

ناول کے مطالعے کے دوران بارہا ایسا اندازہ ہوا کہ شاید مصنفہ خود بھی اس کردار سے مرعوب ہیں۔ناول کی تقریبات میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کی مخلوط محفلوں جیسا رنگ ہے۔ دانیال خاں کے گھر پہ دی گئی دعوتیں انگریزی انداز اور شان لئے ہوئے تھیں جن میں کوئی عامیانہ پن اور سطحی بات نہیں تھی۔اور یہ مصنفہ کے قلم کی خاص بات ہے جنہوں نے ناول لکھتے ہوئے اپنے اور اپنے کرداروں کے مرتبے کا بھرپور خیال رکھا ہے اور کسی کو بھی قاری کی نظروں سے گرنے نہیں دیا۔ معیاری تخلیق پڑھنے کے شائقین کو یقیناً یہ ناول پسند آئے گا۔ ہم مصنفہ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے تخیل سے ہمیں بیلا اور دانیال خان کی زندگی کی کہانی دکھائی۔

ناول سے کچھ اقتباسات پیش ہیں؛
لیکن پتا نہیں کیوں بار بار اسے لگتا، بیلا کو اس کی ضرورت ہے۔ دراصل یہ ہماری اپنی پکار ہوتی ہے۔ ہمیں خود کسی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم کسی اور کے سر تھوپ دیتے ہیں۔

مزید،
“چیتے؟” وہ ہکا بکا رہ گئی۔ ” لیکن یہاں چیتے کیوں سدھائے جاتے ہیں؟”
انہوں نے اس کی حیرت و خوف پر مطلق توجہ نہیں دی۔
“یہ ہم جاگیرداروں کا ایک انداز ہے۔ کون کتنا طاقتور ہے، اس کا اندازہ صرف زمین کی لمبائی چوڑائی سے ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا اسلحہ، گھوڑے چیتے، ملازمین۔ ایسی ایسی ہزاروں چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو ہمارے وقار میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں”۔

مزید،
“آپ کی دنیا بہت شاندار ہے۔ لوگ مخلص ہوتے ہیں، سچ بولتے ہیں۔ سچی محبت کرتے ہیں اور سچی نفرت۔ ایمان دار ہیں، حق گو ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ظلم ہونے بھی نہیں دیتے اور دنیا داری کے ہر جھمیلے سے آزاد ہیں۔ سو بی بی تارک الدنیا، پاکیزہ نن اور دوشیزہ، خدا کرے آپ کی یہ احمقوں کی جنت کبھی مسمار نہ ہو”۔

مزید،
“میں نے یہ نہیں کہا۔ میرا مطلب ہے کہ ان کی باتوں کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو ہمیں نظر آتا ہے۔ وہ جو کہنا چاہتا ہے وہ کہتا نہیں۔ اور جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ اس کا مطلب ہی نہیں ہوتا”۔

مزید،
“میں نے آزمایا بھی ہے، دیکھا بھی ہے، آپ بہت بہادر ہیں۔ بہت باہمت لڑکی ہیں۔ یہ کوشش آپ ہی کر سکیں گی”۔
یہ اچھا مذاق ہے۔ باربار اس کو ایک مصیبت دکھا کر یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ بہادر ہے بہت بہادر۔
حالانکہ میں بہت بزدل ہوں۔ اس نے سوچا۔ میرا بھی ایسے واقعات پر جی چاہتا ہے میں ہسٹیریک ہوجاؤں، چیخیں ماروں اور زور زور سے رو پڑوں۔ لیکن میں صرف برداشت کر لیتی ہوں۔

مزید،
اور پھر ان دنوں اس کے بھائی نے بڑی عجیب ضد چھیڑ دی۔ وہ بھی اپنے باپ کا تھا۔ وہی طنطنہ، وہی دبدبہ، وہی ضد۔ وہ اس کے دشمن کی بیٹی تھی۔ ان لوگوں نے ہمارے گاؤں کی بہت سی لڑکیاں اٹھائی تھیں۔ یہ بھی ان کی لڑکیاں اٹھا لایا اصل میں لڑکی اٹھانے میں تو کوئی برائی نہیں”۔
جیسے چپ ہو کر حالات کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہو گئیں۔
“برائی تو یہ نکلی کہ ضد کرنے لگا اس کو عزت سے بیاہے گا۔ اور جانتی ہو بیلا، اس کے باپ نے کیا فیصلہ کیا؟” انہوں نے لہجے میں فخر سمو کر بڑی شان سے بیلا کی طرف دیکھا۔
“ہماری آن اور عزت کے لئے بالکل درست فیصلہ۔ حالانکہ ایسے فیصلے ہمیں سینے پر پتھر رکھ کر قبول کرنے پڑتے ہیں، جس دن اسے بیاہ کر گڑھی لایا۔ اس کے باپ نے اس کو گڑھی کے محافظ چیتوں کے آگے ڈال دیا۔ اور تم سوچ سکو گی۔ اس سزا پر عمل درآمد کس نے کیا۔ یہ اپنے دانیال خان نے۔
آفرین ہے اس پر۔ تابعدار اور فرض شناسی کی اس نے ایک مثال قائم کر دی۔ اس نے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر بھائی اور اس کی محبوبہ کو بھوکے چیتوں کے حوالے کر دیا۔ اسی لئے تو بستی کےلوگ دانیال خان کو پوجتے ہیں سوچو بیلا اس نے اپنی روایتوں کے آگے بھائی کی محبت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ وہ روایتوں کا پاسبان اور وضعداری کا نگہبان ہے”۔

مزید،
“محبت بڑا ذلیل جذبہ ہے بیلا بی بی۔ آپ کتابوں میں اسے پڑھیں تو یہ آپ کو طاقتور لگتا ہے جیسے آپ اس کی مدد سے دنیا کے دھارے بدل ڈالیں گے۔ لیکن جب یہ واردات انسان پر خود گزرتی ہے تو نڈھال کر دیتی ہے۔ بزدل بنا دیتی ہے”۔
“محبت صرف ان لوگوں کو بزدل بناتی ہے جو اس میں تنہا جلتے ہیں”۔
انہوں نے ایک نظر غور سے دریا کے بھاگتے پانی کی طرف دیکھتی لڑکی کو دیکھا “اور آپ یقین کریں محبت میں کوئی تنہا جل ہی نہیں سکتا۔ محبت ہمیشہ ایک سے زیادہ لوگوں کو خاکستر کرتی ہے ہاں مایوس ضرور کرتی ہے اس لئے کہ راستے میں ہمالیہ سے سخت اور آسمان سے بلند پہاڑ ہیَں۔ جب آپ ان رکاوٹوں کو پار نہیں کر سکتے تو آپ کا جی چاہتا ہے آپ ان سے اپنا سرپھوڑ لیں”۔

مزید،
یہ بہت عجیب و غریب قبیلہ ہے بیلا۔ ہم ان کو دقیانوسی اور پتھر کے زمانے کے لوگ سمجھتے ہیں لیکن یہ اپنی زمین میں بہت اندر تک اتر گئے ہیں۔ یہ سرداروں کو پوجتے ہیں۔ ان پر جان دیتے ہیں۔ لیکن سردار بھی ان کی روایات کا بھرم رکھنے کے لئے ایک کٹھ پتلی ہیں۔ جس دن سردار قبیلے کے اصولوں کے خلاف چلے گا۔ اس کا کچلا ہوا قیمہ خود عوام نہیں پہچان سکیں گے۔

تشریف آوری کے لئے شکر گزار ہوں۔ ہمیشہ خوش رہیں اور اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیں۔
آپ بھی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔
اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔
نوٹ: بلاگ میں نیلا رنگ کتاب سے لئے گئے اقتباسات کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

3 thoughts on “160-اک موسم دل کی بستی کا از رفعت ناہید سجاد”

Leave a comment