Book Review, Fiction, Inspirational, Pakistani, Pakistani literature, Romance, Urdu

152-الف از عمیرا احمد

گزشتہ صدی میں دنیا نے دو عالمی جنگیں دیکھیں جب انسانوں نے انسانوں کو اپنا دشمن سمجھ کے اسلحہ بارود کا بےدریغ استعمال کیا۔ جنگوں کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کی ایک ناختم ہونے والی دوڑ شروع ہو گئی۔ حکومتیں نئے سے نیا اور خطرناک سے خطرناک ہتھیار بنانے میں جٹ گئیں۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ماہرین خبردار کرنے لگے کہ یہ ہتھیار دنیا کی مکمل تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، انسانیت خود کو تباہ کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود جنگی جنون ختم نہ ہوسکا۔ موجودہ صدی میں حالیہ چند مہینوں سے انسانیت کو ایک نئے دشمن کا سامنا ہے۔ یہ دشمن کسی ہتھیار سے ہلاک نہیں ہو سکتا۔ وہ تمام ہتھیار جو حکومتوں نے انسانوں کو مارنے کے لئے بنائے تھے اس نئے دشمن کے سامنے بےکار ہیں۔ اس وقت انسانیت ایک ایسی صورتحال سے گزر رہی ہے جس نے اس کے سامنے ایک مشترکہ دشمن لا کھڑا کیا ہے۔ اس مشترکہ دشمن نے انسانیت کو متحد کر دیا ہے اور اس کا نام کرونا وائرس ہے۔ اس نا نظر آنے والے وائرس کے خلاف جنگ میں دنیا کا ہر انسان شامل ہے۔ ہم سب اس ایک کشتی میں سوار ہیں جو کرونا وائرس کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کشتی نہیں۔ انسانیت متحد ہے۔ ہم سب متحد ہیں۔ اس وائرس کے خلاف جنگ نے بتایا ہے کہ ہمیں ہتھیاروں کی ضرورت نہیں بلکہ انسانیت کی بقا انسانوں کے اتحاد میں ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگی جنون سے نکل کے انسانیت کی فلاح و بہبود کی دوڑ میں شریک ہوا جائے۔ ایک ایسی دنیا کی تشکیل دی جائے جہاں انسانیت اول ترجیح ہو اور انسان کو انسان کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کائنات میں اور بھی کئی مخلوقات ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں جن میں سے یہ ایک نا نظر آنے والا کرونا وائرس بھی ہے۔

الف از عمیرا احمد

نام کتاب: الف
مصنفہ: عمیرا احمد
صنف: ناول
صفحات: 470
سن اشاعت: 2019
قیمت: 1200 روپے

Alif by Umera Ahmedعمیرا احمد موجودہ دور کی صف اول کی مصنفہ ہیں جن کی ایک بڑی فین فالوئنگ ہے۔آپ کے نام اور کام سے قارئین کی اکثریت واقف ہے۔ اگر کسی کو آپ کے لکھے ناول پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو بھی امکان ہے کہ اس نے آپ کے لکھے کسی ڈرامے کو ضرور دیکھا ہو گا۔ عمیرا احمد نےقلمی سفر کی ابتدا ڈائجسٹ میں قسط وار ناول لکھنے سے کی تھی جس کو لکھے بیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران عمیرا کا قلم رکا نہیں ہے انہوں نے کئی ضخیم ناول لکھے ہیں اور ہر ناول ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔  آپ کے مشہور ناولوں میں پیرِ کامل،من و سلویٰ،امر بیل، لا حاصل وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم عمیرا احمد کئی مرتبہ تنقید کی زد میں بھی آئی ہیں۔ ان کے ناول پیرِ کامل نے جہاں ایک طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑے وہیں کچھ قارئین کو براہ راست اس میں ایک مذہبی فرقے کو ملوث کرنا مناسب نہیں لگا۔ انہیں عمیرا کے خیالات میں شدت پسندی نظر آئی۔ شدت پسندی کی شکایت ان کے دیگر ناولوں کے متعلق بھی کی گئی ہے۔ عمیرا کی بُنی ہوئی کہانیوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ایکسٹریمز کی باتیں کرتی ہیں۔ ان کے کردار اپنی زندگیوں میں ایک طرف انتہا کی پستیوں کو چھوتے ہیں اور دوسری طرف بلندی کی آخری حدوں کو۔ اس نیچائی سے اونچائی کے سفر کے دوران وہ انتہائی سخت تکلیفوں سے گزرتے ہیں جیسےامر بیل کا عمر جو ایک طرف انتہائی کرپٹ پولیس آفیسر تھا اور دوسری طرف علیزے کے لئے انتہائی مشفق اور مہربان۔ علیزے سے بےحد محبت کرنے کے باوجود وہ کبھی اس سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر سکا کیونکہ وہ اپنے کردار کی برائی اور کمزوریوں سے واقف تھا۔ عمیرا احمد کرداروں کی نفسیات اور الجھنیں بہت عمدگی سے پیش کرتی ہیں۔ وہ درمیانی رستہ اختیار نہیں کرتیں جہاں کردار انتہاؤں کے درمیان ڈولنے کی بجائے ایک کم الجھے اور نسبتاً کم تکلیف دہ رستوں سے گزریں۔ ان کے ہاں گرے شیڈ کیریکٹرز نہیں ہیں جو کسی کے لئے بیک وقت اچھے بھی ہوں اور برے بھی ہوں۔ ان کے کردار یا تو صفر ہیں یا پھر ایک۔ ایسا ان کے ہر ناول میں ہے۔ مطالعے کے دوران قارئین ان کرداروں کے ساتھ اونچائی اور پستی کا سفر طے کرتے ہیں، ان کے دکھ، درد اور کرب کو اتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ آپ کے  کئی کرداروں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے ہیں جیسے امامہ، سالار، خدیجہ نور وغیرہ جو لوگوں کو انسپائر کرتے ہیں۔ آپ کی تحریروں میں مذہبی رجحان واضح ہے۔ کئی لوگ آپ کو استاد کا درجہ دیتے ہیں جو اپنی تحریروں سے لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ عمیرا احمد ہمارے پسندیدہ مصنفین میں شامل ہیں۔ کتابستان میں ہم ان کے کئی ناولوں پہ مضامین پیش کر چکے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

آج جس ناول پہ ہم بات کر رہے ہیں اس کا عنوان ہے الف۔ عمیرا احمد پچھلے کئی سالوں سے  اب ناول نہیں لکھتیں اور آپ کا تمام کام ٹیلی وژن کے ذریعے ہی آپ کے فینز تک پہنچتا ہے۔ تاہم ڈائجسٹ سے ابتدائی وابستگی کی وجہ سے اور قارئین کی بھر پور فرمائش کے بعد عمیرا احمد نے الف، ناول پڑھنے کے شائقین کے لئے لکھا ہے۔ الف یہ ناول خواتین ڈائجسٹ میں قسط وار چھپنے کے بعد کتابی شکل میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ ناول مکمل ہونے کے بعد اس کی ڈرامائی تشکیل ٹیلی ویژن پہ پیش کی جا چکی ہے۔

ناول کے اہم کردار یہ ہیں:
قلبِ مومن: یہ ناول کا مرکزی کردار ہے۔ جس کا بچپن ترکی میں گزرا ہے۔ قلبِ مومن ایک کامیاب فلم ڈائریکٹر ہے۔ اس کی بنائی ہر فلم کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑتی ہے۔ ہر ہیروئن اس کی توجہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ قلبِ مومن کے نزدیک عورت ایک شو پیس سے زیادہ نہیں اور اس کا اظہار اس کی فلموں میں بخوبی ہوتا ہے۔
مومنہ سلطان: یہ ناول کی مرکزی ہیروئن ہے۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی جو شوبز کی دنیا میں قدم رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ اس کام کو پسند نہیں کرتی لیکن اپنے گھر کی گاڑی چلانے کے لئے اسے اس راہ پہ چلنا ہی ہے۔ مومنہ خطاطی میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔
حسنِ جہاں: یہ قلبِ مومن کی والدہ ہے اور اپنے وقت کی ایک نامی گرامی اداکارہ ہے۔
سلطان: یہ مومنہ کا والد ہے اور ایک زمانے میں یہ حسنِ جہاں کا میک اپ آرٹسٹ رہ چکا ہے۔
عبد العلیٰ: یہ قلبِ مومن کے دادا ہیں اور ایک بہترین خطاط۔ آپ کا تعلق ترکی سے ہے۔

الف کا موضوع عمیرا احمد کے پرانے قارئین کے لئے نیا نہیں ہے۔  چند ایک کے علاوہ ان کے زیادہ تر ناولوں میں مذہبی پہلو نمایاں ہے۔ یہی مذہبی پہلو الف میں بھی ہے۔ الف کے کرداروں میں نیا پن نہیں ہے۔ اکثر کردار عمیرا احمد کے دیگر ناولوں کے کرداروں سے خاصی مماثلت رکھتے ہیں۔ جیسے قلبِ مومن میں ہمیں پیرِ کامل کے سالار کی جھلک نظر آئی، حسنِ جہاں میں ہمیں لاحاصل کی خدیجہ نور اور مومنہ میں ہمیں من و سلویٰ کی زینب نظر آئی۔ گرچہ ناول کی سیٹنگ مختلف ہے لیکن اِن کرداروں کی انفرادی زندگیاں معمولی سے فرق کے ساتھ اُن کرداروں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کے اختتام سے قبل ہی یہ اندازہ کرنا بہت آسان تھا کہ کون سا کردار زندگی کا کون سا رخ اختیار کرے گا۔ اسی باعث ناول میں سسپنس ختم ہو گیا تھا۔ لیکن وہ قارئین جو عمیرا کے کام سے زیادہ واقف نہیں ہیں وہ یقیناً اس ناول سے اسی طرح متاثر ہوئے جس طرح پرانے قاری پیرِ کامل، لاحاصل اور من و سلویٰ سے ہوئے تھے۔

ناول کے مطالعے کے دوران تشنگی کا شدت سے احساس ہوا۔ اپنے روایتی انداز کے برعکس عمیرا نے ناول کھل کے نہیں لکھا۔ ان کے پرانے ناولوں کے برعکس یہ ضخیم اور تفصیلی نہیں ہے جس کے باعث  یہ ایک خلاصے کی مانند لگا۔ ایسا ہی احساس ہمیں ان کے گزشتہ ناول عکس کا مطالعہ کرتے ہوئے ہوا تھا جو کوئی بھی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا تھا۔ ۔ ناول میں گرچہ تکلیف دہ سچویشنز موجود تھیں لیکن کرداروں کا درد قاری محسوس نہیں کر سکا۔ ان ناولوں میں وہ کڑواہٹ موجود نہیں تھی جو قاری کے منہ میں زندگی کی تلخ حقیقت کا ذائقہ گھول دے۔ ایسا غالباً اس لئے کہ اب عمیرا کی توجہ ٹیلی ویژن کی طرف ہے اور ناول ثانوی توجہ پاتے ہیں۔ الف کی کہانی اور کرداروں کو اگر تفصیل سے جاننا ہے تو ڈرامہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ ناول تفصیلی نہیں ہے۔ اس بات سے بطور قاری ہمیں مایوسی ہوئی کیونکہ آخر میں اگر ڈرامہ دیکھنا لازم ٹھہرا تو پھر ناول لکھنے کا تکلف نہیں کیا جانا چاہئے اور ڈرامہ ہی پیش کیا جانا چاہئے تھا۔ عمیرا احمد کی دیگر تحاریر کے برعکس اس ناول میں کردار بلندی اور پستی کی ان انتہاؤں میں معلق نظر نہیں آئے جیسا کہ عموماً ان کی تحاریر میں نظر آتا ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ قلبِ مومن نے کردار کی پستیوں کو نہیں چھوا۔ ہمیں مومنہ کے لئے بھی خوشی ہوئی کہ اسے زندگی کے سفر میں اس ذلت سے نہیں دوچار ہونا پڑا جس سے من و سلویٰ کی زینب ہوئی تھی۔

ہم عمیرا احمد کے قلمی سفر کے لئے دعا گو ہیں۔ 

تشریف آوری کے لئے شکر گزار ہوں۔ ہمیشہ خوش رہیں اور اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیں۔ 

آپ بھی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔

**********

عمیرا احمد کے قلم سے مزید

عکس از عمیرا احمد
تھوڑا سا آسمان از عمیرا احمد
پیرِ کامل از عمیرا احمد
دربارِ دل از عمیرا احمد
لاحاصل از عمیرا احمد
من و سلویٰ از عمیرا احمد
امر بیل از عمیرا احمد

 

2 thoughts on “152-الف از عمیرا احمد”

Leave a comment