Book Review, Classic, English, English literature, Fiction, Horror, international literature, Romance, Supernatural, Translation

142- Dracula by Bram Stoker

ڈراکیولا از مظہر الحق علوی (ترجمہ)۔

نام کتاب: ڈریکولا

مصنف: بریم اسٹوکر

نام ترجمہ: ڈراکیولا

مترجم: مظہر الحق علوی

صنف: ناول، خوفناک ناول، انگریزی ادب، کلاسک ادب

ناشر: علم و عرفان پبلشرز

Dracula by Bram Stokerخوفناک کہانیاں، خون آشام روحیں، اور دیگر ڈراؤنے قصے اور کہانیاں ہم سب نے اپنے بچپن میں پڑھی ہوں گی۔ انہی مختلف خوفناک کہانیوں اور کرداروں کے درمیان ڈریکولا نامی کردار بھی شامل ہے جس کی کئی کہانیاں ہم بچپن میں ہی پڑھ لیتے ہیں۔ ڈریکولا ایک ایسی روح تھی جو زندہ انسانوں کا خون پیتی تھی ۔ جس انسان کا وہ خون پیتی وہ خون کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتا  اور مرنے کے بعد وہ بھی انسانوں کا خون پینے لگ جاتا۔ ڈریکولا ایک مشہور کردار ہے اور کئی مصنفین نے اس کردار کے گرد گھومتی کہانیاں لکھی ہیں یہ کہانیاں ہر ذبان کے ادب میں موجود ہیں۔ تاہم یہ کردار اصل میں آئرش مصنف بریم اسٹوکر کی تخلیق ہے۔ ان کا لکھا ناول جس میں اس خون آشام روح کے کردار کو پیش کیا گیا ہے، کا عنوان بھی ڈریکولا ہی ہے۔ یہ ناول 1897 میں لکھا گیا تھا اور بریم اسٹوکر کی وجہ شہرت بھی یہی ناول ہے۔ ڈریکولا کی عوامی مقبولیت کے باعث کئی مصنفین نے اس کردار کو لے کر اپنی اپنی تخلیقات پیش کی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ بچے بچپن میں ہی ڈریکولا کی کئی کہانیاں پڑھ لیتے ہیں۔ تاہم ہر مصنف کی تخلیقی صلاحیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے بریم اسٹوکر کے لکھے ڈریکولا ناول کا اردو ترجمہ پڑھا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ڈریکولا کے بارے میں کئی کہانیاں پڑھنے کے باوجود جو مزا اور لطف اس کے اصلی تخلیق کار کے تخیل کو پڑھنے میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اصل، اصل ہی ہوتا ہے۔ ہم اس ضمن میں مظہر الحق علوی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ ان کے توسط سے اصل ناول کا ترجمہ اردو ذبان کے قارئین تک پہنچا۔

اس ناول کے اہم کردار یہ ہیں؛

کاؤنٹ ڈریکولا: ٹرانسلوینیا کے علاقے کا ایک امیر آدمی، جو لندن میں جائداد خریدنے کے بعد وہاں منتقل ہونا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہاں ایک معزز شہری بن کے رہے۔

جناتھن ہارکر: ایک وکیل جسے ڈریکولا کے پاس جائداد کے معاملات نبٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس کی ڈریکولا سے ملاقات ہوئی اور اس نے اس کے غیر انسانی مخلوق ہونے کا اندازہ لگایا۔

مینا: جناتھن ہارکر کی منگیتر

لوسی: مینا کی بہترین دوست جو ڈریکولا کا پہلا شکار بنی

ڈاکٹر وان ہیلسنگ: ایک ڈاکٹر، جو ساتھ ہی فلسفی ماہر ما بعد الطبیعات اور بہترین سائنسدان ہے۔ ناول میں ان کی آمد لوسی کے علاج کے سلسلے میں ہوتی ہے۔

جان سیورڈ: ایک ڈاکٹر اور لوسی سے شادی کا آرزومند

رن فیلڈ: جان سیورڈ کا مریض، جو ڈریکولا کے زیرِ اثر ہے۔

آرتھر: لوسی کا منگیتر اور ایک امیر شخص جسے وراثت میں ایک بڑی جاگیر ملی ہے

وملیتر کا کپتان: جس جہاز پہ کاؤنٹ ڈریکولا نے ٹرانسلوینیا سے لندن تک کا سفر کیا، اس کا کپتان جو اس سفر کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس سفر کے حالات اس کے روزنامچے سے معلوم ہوئے۔

Dracula Urdu Translation by Mazhar Ul Haq Alviناول کا آغاز جناتھن ہارکر کے روزنامچے سے ہوتا ہے جس میں وہ اپنی روزانہ کی مصروفیات اور احوال لکھتا تھا۔ روزنامچے کا آغاز اس کے لندن سے ٹرنسلوینیا کے سفر سے ہوتا ہے جو وہ ریل کے ذریعے طے کرتا ہے اور میونخ، ویانا، بداپسٹ جیسے علاقوں سے ہوتے ہوئے کارپیتھیا پہنچتا ہے۔ لندن روانہ ہونے سے قبل وہ نقشوں اور دیگر کتب کی مدد سے اس علاقے کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بس اتنا جان پاتا ہے کہ کاؤنٹ نے جس علاقے کا پتہ دیا تھا وہ یورپ کا انتہائی گمنام اور غیر آباد علاقہ تھا انتہائی کوشش کے باوجود کوئی ایسی کتاب نہ ملی جس میں قیصر ڈریکولا کا ذکر ہوتا۔ اس سفر کے دوران جناتھن بےچینی کا شکار رہتا ہے اور رات کو سکون سے نہیں سو پاتا۔ رستے میں جس ہوٹل میں اس کا قیام ہوتا ہے اس کا مالک بھی اسے قیصر ڈریکولا کے بارے میں کچھ نہیں بتا پاتا۔جناتھن ان کا خوف محسوس کرنے کے باوجود کچھ سمجھ نہیں پاتا اور اپنا سفر جاری رکھتا ہے کیونکہ جس کام سے اسے بھیجا گیا تھا وہ ضروری تھا۔ جناتھن قصر ڈریکولا کی طرف سفر جاری رکھتا ہے، اس کے ساتھ مسافر اس کی طرف ہمدردی اور رحم کی نظر سے دیکھ رہے تھے تاہم جناتھن کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ رستے میں اس کے ساتھ کئی غیر معمولی اور ناقابل فہم واقعات پیش آئے جو اس نے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لئے کہ کاؤنٹ ڈریکولا سے ان کا مطلب پوچھے گا۔ تمام تر غیر معمولی واقعات کے باوجود جناتھن قصر ڈریکولا پہنچ گیا جہاں کاؤنٹ نے بذات خود اس کا استقبال کیا۔ جناتھن نے کاؤنٹ ڈریکولا کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے،

”اب میں نے اپنے میزبان کا جائزہ لیا۔ وہ غیر معمولی خدو خال کا آدمی ہے۔ مضبوط جبڑا، لمبوترہ چہرہ، ناک کا بانسہ بلند اور نتھنے محرابی، بلند ماتھا سر پر گھنے مگر کنپٹی پر چھدرے سفید بال بھوئیں بےحد گھنی جو ناک کے اوپر آپس میں مل گئی تھیں اور ان کے بال اتنے لانبے تھے کہ آنکھوں پر جھک آئے تھے۔ گھنی موچھوں کے نیچے اس کا دہن مجھے بےحد عجیب سا معلوم ہوا۔ کسی بےرحم آدمی کے دہن کا سا، دانت حیرت انگیز حد تک سفید اور نوکیلے خصوصاً وہ دو دانت جو سامنے کے دو دانتوں کے دائیں بائیں ہوتے ہیں بھیڑئیے کے دانتوں کی طرح نوکدار اور مڑے ہوئے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ ہونٹ سرخ ناقابل یقین حد تک سرخ۔ معمر آدمی تو ایک طرف میں نے کسی نوجوان کے بھی اتنے سرخ ہونٹ نہ دیکھے تھے۔ ٹھوڑی دہری ہڈی کی اور پھیلی ہوئی رخساروں کا رنگ مردے کی طرح سفید۔ ہونٹوں کے علاوہ بدن کا کوئی حصہ سرخ نہ تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے بدن میں خون ہی نہیں۔ کونٹ ڈریکولا کے ہاتھ مضبوط، پھیلے ہوئے اور بھدے تھے۔ ناخن وحشیوں کی طرح لانبے مگر صاف اور سب سے عجیب بات تو میں نے یہ دیکھی کہ ہتھیلیوں پر بھی بال تھے۔ کونٹ نے باتوں کے دوران جب آگے جھک کر میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تو مجھے پھریری سی آگئی اور ساتھ ہی جی متلانے لگا۔ کونٹ کا سانس متعفن تھا۔ عموماً بوڑھے آدمیوں کا سانس بدبودار ہوتا ہے لیکن یہ بدبو کچھ عجیب سی تھی۔ سڑے ہوئے گوشت اور خون کی بدبو۔ باوجود کوشش کے میں ابکائی نہ روک سکا۔“

ڈریکولا کا رویہ جناتھن کے ساتھ گرچہ اچھا تھا لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ قصرِ ڈریکولا آسیبی ہے اور یہ کہ ڈریکولا خود بھی ایک بدروح ہے۔ اس پورے سلسلے میں سب سے پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ قصرِ ڈریکولا میں ایک قیدی تھا جہاں سے وہ باہر نہیں نکل سکتا تھا اور دوسری طرف ڈریکولا ایک روسی بحری جہاز کے ذریعے لندن کی طرف روانہ ہو گیا تھا نیز اس نے پچاس بڑے صندوق بھی لندن کے لئے بک کرئے تھے جن میں ٹرانسلوینا کی مٹی بھری ہوئی تھی۔ جلد ہی ایک لاوارث جہاز انگلستان کے ساحلی علاقے وہبی کے ساحل کے قریب نظر آیا، ساتھ ہی ایک زبردست اور ناگہانی طوفان اچانک پھٹ پڑا۔ جس کے ساتھ ہی گاڑھا گاڑھا کہر بھی ساحل پہ پھیل گیا۔ یہ سارا ماحول ایسا تھا کہ لوگ خوفزدہ ہو گئے جیسے فضا میں موت رچی ہو اور گویا کہر موت کا فرشتہ ہو۔ جہازکے ساحل پہ پہنچتے ہی ایک کالے رنگ کا بڑا سا کتا باہر نکل کے ساحل پہ کودا اور شہر کی طرف بھاگ گیا۔ جہاز پہ کوئی زندہ وجود نہ تھا تاہم کپتان کی لاش موجود تھی اور ساتھ ہی اس کا روزنامچہ بھی موجود تھا جس میں جہاز پہ پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات درج تھے۔

اس روزنامچے میں جہاز کے کپتان نے جہاز پہ کسی وجود کی موجودگی کا ذکر کیا تھا۔ ملاح غیر مطمئن اور خوفزدہ تھے۔ ایک ایک کرکے ملاح غائب ہونے لگے جس سے ملاحوں کے خوف میں اضافہ ہونے لگا۔ ایک ملاح نے کہا کہ جہاز پہ کوئی اجنبی آ گیا ہے جو طویل القامت اور دبلا پتلا ہے وہ جہاز کے نچلے حصے سے عرشے پہ آیا اور پھر غائب ہوگیا۔ جہاز کے کپتان نے خوف دور کرنے کے لئے پورے جہاز کی تلاشی لی لیکن کچھ برآمد نہ ہوا۔ ملاحوں کے غائب ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ نائب کپتان نے بھی عرشے کی نگرانی کے دوران اس وجود کو دیکھا اور پھر اس کے شر سے بچنے کے لئے سمندر میں چھلانگ لگا لی۔ جہاز کے کپتان نے ایک روزنامچے میں ایک کہر کا ذکر بھی کیا تھا جو جہاز کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ بعد ازاں کپتان نے بھی اس وجود کو دیکھ لیا لیکن اس نے جہاز کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ کپتان تھا اور اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔

جناتھن کی منگیتر میناوہبی کے ساحلی علاقے میں اپنی دوست لوسی کے پاس ٹھہری ہوئی تھی۔ لوسی کی منگنی آرتھر نام کے شخص سے ہوئی تھی، اس کے تین رشتے آئے تھے اور فیصلہ آرتھر کے حق میں ہوا۔ لوسی کو سوتے میں چلنے کی عادت تھی، ایسے میں مینا اس کی دیکھ بھال کرتی رہتی تھی۔ ایک رات لوسی نیند میں چلتے ہوئے گھر سے باہر چلی گئی اور ایک پرانے قبرستان میں چلی گئی۔ مینا بھی اسے ڈھونڈتے ہوئے قبرستان تک پہنچ گئی۔ وہاں اس نے کسی کالی، دبلی پتلی اور طویل القامت چیز کو لوسی پہ جھکے ہوئے دیکھا۔ وہ بہرحال کسی طرح لوسی کو وہاں سے واپس گھر لے آئی۔ دن کی روشنی میں اسے لوسی کی گردن پہ دو چھوٹے نشان نظر آئے۔ مینا نے خیال کیا کہ شاید اس سے پن لوسی کو چبھ گئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوسی مضمحل اور نڈھال رہنے لگی اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے اور وہ دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی گردن پہ موجود سوراخ وقت کے ساتھ ٹھیک ہونے کی بجائے کچھ بڑے ہو گئے تھے۔ لوسی کی بیماری دیکھ کر اس کے منگیتر نے ڈاکٹر سیورڈ کی مدد لینے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا وجہ ہے جس کے باعث اس کی منگیتر کے جسم میں خون کی کمی ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر سیورڈ نے اپنے استاد وان ہلسنگ کو خط لکھ کے مدد کے لئے بلایا۔ وان ہیلسنگ ایک سمجھدار ڈاکٹر تھے۔ تاہم تمام لوگوں کی کوششیں مل کے بھی لوسی کی کمزوری میں کمی نہ کر سکیں۔ تاہم وان ہیلسنگ نے جلد ہی بھانپ لیا کہ کوئی غیر مرئی معاملہ درپیش ہے اور مقابلہ ایک شیطانی قوت سے ہے۔ تمام لوگوں کی کوششیں مل کر بھی لوسی کو نہیں بچا سکیں۔ وان ہیلسنگ نے لوسی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں مینا سے بھی گفتگو کی جس سے انہیں جناتھن کے واقعات کا علم ہوا اور وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ کاؤنٹ ڈریکولا نامی بدرروح لندن پہنچ چکی ہے۔ یہ بات گرچہ خوفزدہ کر دینے والی تھی لیکن ان لوگوں کو مل کے اس خبیث روح کو ڈھونڈنا اور روکنا تھا تاکہ وہ اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس موقع پہ ڈاکٹر وان ہیلسنگ، آرتھر، ڈاکٹر سیورڈ، جناتھن، مینا مل کے ایک ٹیم بناتے ہیں اور ڈریکولا کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی کوششوں کا آغاز کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کس طرح کوششیں کیں اور آیا وہ ان میں کامیاب ہوئے، یہ جاننے کے لئے ناول کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔

ڈریکولا ایسا ناول ہے جسے لکھے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اس کے باوجود یہ ایک ناقابل فراموش ناول ہے۔ ناول زیادہ خوفناک نہیں ہے، اور اس صورت میں جب کہ ڈریکولا کے کردار اور کہانی سے ہم واقف ہیں اس کی خوفناکی مزید کم ہو جاتی ہے۔  اس کے باوجود  ناول کے مطالعے کے دوران کئی مقامات پہ خوف کا احساس ہوتا ہے۔ رات کے وقت پڑھتے ہوئے یہ احساس ہو سکتا ہے کہ وہ گھر کی کھڑکی کے باہر موجود ہے۔ اگر آپ نے اصلی ناول  پہلے سے پڑھ رکھا ہے تو ہو سکتا ہے آپ کو کچھ بھی خاص نہ لگے۔لیکن ناول پڑھ کے معلوم ہوتا ہےکہ یہ بچوں کے لیے لکھا گیا ادب نہیں ہے۔ ناول کے مطالعے سے خون آشام یا بدروحوں کے متعلق کئی باتوں کا علم ہوتا ہے جیسے کہ لہسن کے پھول کا اثر، جو ایسی بدروحوں سے انسان کی حفاظت کرتا ہے۔  یہ ناول کیونکہ ایک صدی قبل لکھا گیا ہے اس میں موجود کچھ باتیں اب سائنسی طور پہ درست نہیں مانی جاتیں جیسے کہ کہانی میں ایک موقع پہ جب لوسی کے جسم میں خون کی کمی حد سے زیادہ ہو جاتی ہے تب وہاں موجود لوگ اسے خون دیتے ہیں۔ خون دینے کا یہ عمل یکے بعد دیگرے وہاں موجود تمام افراد ہی انجام دیتے ہیں۔ جدید سائنسی ترقی کی وجہ سے ہم اب یہ جانتے ہیں کہ ہر شخص کا خون نہیں لگایا جا سکتا۔ خون دینے کے لئے پہلے خون کا گروپ میچ کرنا پڑتا ہے اگر ڈونر کے خون کا گروپ مریض کے خون کے گروپ سے میچ کر جائے تب ہی خون لگایا جا سکتا ہے بصورت دیگر نہیں۔ تاہم ناول کے لکھے جانے کے وقت یہ سائنسی علم موجود نہیں تھا اس لئے کہانی میں اس کا ذکر نہیں اور بنا خون گروپ میچ کئے مختلف لوگوں کا خون لوسی کو چڑھایا جاتا رہا تھا۔ تاہم اس کے باوجود بھی ناول کی دلچسپی مانند نہیں پڑتی۔ یہ ایک طویل ناول ہے لیکن ایک دفعہ ہاتھ میں لینے کے بعد مکمل پڑھے بغیر چھوڑنا مشکل ہے۔ یہ ایک لازوال ناول ہے اور ایسے ناولز صدیوں میں ہی لکھے جاتے ہیں۔

کیا آپ اس تبصرے سے متفق ہیں۔آپ بھی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔

تشریف آوری کے لئے شکر گزار ہوں۔ ہمیشہ خوش رہئے۔

بریم اسٹوکر کے قلم سے مزید

دی جیول آف سیون اسٹارز از بریم اسٹوکر

مظہر الحق علوی کے مزید ترجمہ شدہ

دی مونک از ایم جی لیوس (خانقاہ)

ملتی جلتی تحاریر

دی لیجنڈ آف سلیپی ہالو از واشنگٹن ارونگ (سر کٹا گھڑ سوار، مترجم: ریاض احمد)  

نوٹ: بلاگ میں نیلا رنگ  کتاب سے لئے گئے اقتباسات کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

Leave a comment