Classic, Russian Literature, Translation

111- Humiliated and insulted by Fyodor Dostoyevsky

Humiliated and insulted by Fyodor Dostoyevsky

ذلتوں کے مارے لوگ از فیودور دوستو فیسکی

The insulted and injuredمصنف: فیودور دوستو فیسکی

ترجمہ: ذلتوں کے مارے لوگ

مترجم: ض ۔ انصاری

صنف: ناول، روسی ادب

زبان: روسی

روسی ادب دنیا کے بہترین ادب میں شمار ہوتا ہے۔ روس نے دنیا کو بڑے ادیب دیئے ہیں جن میں لیو ٹالسٹائی، الیگزینڈر پشکن، فیودور دوستوفیسکی وغیرہ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ نثر ہو یا نظم، دونوں میدانوں میں ہی روسی ادباء اور شعراء نے کمالات دکھائے ہیں۔ کتابستان میں مشہور روسی مصنف لیوٹالسٹائی کےکچھ کام کو پیش کیا جا چکا ہے ۔آج ایک اور عظیم مصنف کے تعارف کا ہم اعزاز حاصل کر رہے ہیں جن کا نام ہے ’فیودور دستوفیسکی‘ ۔ دستو فیسکی کا زمانہ ۱۸۲۱ سے ۱۸۸۱ کا ہے۔ آپ ایک مشہور ناول نگار، فلسفی، جرنلسٹ اور مضمون نگار تھے۔ دتسو فیسکی نے انسانوں کی نفسیات کو روسی لوگوں کی حالت زار کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ دستو فیسکی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے یہاں جائیں۔

ذلتوں کے مارے لوگ، دوستوفیسکی کا لکھا ہوا ناول ہے۔ اس ناول کے انگریزی زبان میں مختلف عنوانات سے تراجم کئے گئے ہیں۔ جن میں سے کچھ ذیل میں ہیں:
The insulted and humiliated, The insulted and injured, or injury and insult.

ذلتوں کے مارے لوگ ایک نوجوان مصنف کی نظر سے پیش کی گئی ایک کہانی ہے۔ کئی لوگ اسے دوستو فیسکی کی اپنی کہانی بھی قرار دیتے ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار آئیوان پیٹرووچ ہے جو ایک نوجوان مصنف ہے۔ وہ نوجوان اپنی کتاب تحریر کرنے کی وجہ سے ایک الگ فلیٹ میں سینٹ پیٹر برگ کے سستے سے علاقے میں مقیم تھا۔ اس کی ایک بچپن کی دوست تھی جس کا نام نتاشا تھا ۔ نتاشا اپنے بوڑھے ماں باپ کی اکلوتی اولا د تھی۔ آئیوان کے نتاشا کی فیملی سے اچھے تعلقات تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے جایا کرتا تھا۔آئیوان ، نتاشا سے محبت کیا کرتا تھا اور دوسری طرف نتاشا ایک امیر لڑکے الیوشا کی محبت میں مبتلا تھی۔ پھر ایک دن وہ اس لڑکے کی محبت میں اپنے گھر سے بھاگ گئی۔ نتاشا کے ماں باپ پہ اس بات کا برا اثر ہوا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کی بیٹی نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ نتاشا کے باپ نے اپنی بیٹی کو بددعا دی کہ وہ زندگی میں کبھی خوش نہ رہے۔ الیوشا نتاشا سے محبت کرتا تھا۔ وہ ایک صاف دل انسان تھا لیکن اپنی ضروریات کے لئے اپنے امیر باپ کا محتاج تھا۔الیوشا کا باپ اپنے بیٹے کی نتاشا سے محبت سے خوش نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک امیر لڑکی سے محبت کرے تاکہ اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک لڑکی کترینہ کا انتخاب کیا تھا۔ اس نے الیوشا کو کترینہ سے ملاقات کے لئے بلایا۔ الیوشا ، کترینہ کی محبت میں بھی گرفتار ہوا، لیکن اس نے نتاشا سے اپنی محبت کی کہانی کترینہ کو سنا دی جس کے جواب میں کترینہ نے الیوشا کو نتاشا کے ساتھ ہی رہنے کی حمایت کی۔ لیکن الیوشا کے باپ نے نتاشا کو مجبور کیا کہ وہ اس کے بیٹے کو چھوڑ دے۔ نتاشا نے الیوشا کے لئے ویسا ہی کیا، جیسا اس کے باپ نے چاہا تھا۔ یہ وقت نتاشا کی زندگی کا کٹھن ترین وقت تھا۔ وہ اپنے ماں با پ کا گھر چھوڑ آئی تھی۔ اپنے محبوب کو بھی اسے چھوڑنا پڑا تھا۔ اس انجان شہر میں آئیوان کے سوا اس کا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ وہ اس غم میں بیمار پڑ گئی۔

دوسری طرف آئیوان نے اپنے گھر میں ایک بچی کو پناہ دی تھی جس کا نام نیلئ تھا۔ نیلئ کی ماں اسے چھوڑ کے چل بسی تھی۔ اس کے باپ نے اس کی ماں کو دھوکہ دیا تھا او ر اب نیلئ پورے شہر میں اکیلی تھی۔ نیلئ نے آہستہ آہستہ اپنی کہانی آئیوان کو سنائی۔ جس کے مطابق اس کی ماں ایک امیر شخص کی بیٹی تھی لیکن ایک شخص کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد وہ اپنے باپ کو چھوڑ گئی تھی۔ اس امیرآدمی نے نیلئ کی پیدائش پہ اس عورت کو چھوڑ دیا۔ وہ بے چاری دھکے کھاتی رہی پھر وہ اپنے باپ کے پاس واپس آئی لیکن اس کے باپ نے بھی اسے دھتکار دیا۔ سخت ٹھنڈ میں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ پھر ایک دن نیلئ کے نانا کو ان پہ رحم آیا اور وہ ان سے ملنے آیا لیکن تب تک اس کسی بیٹی مر چکی تھی۔ نیلئ بھی کمزور تھی اور بیماری کا شکار تھی۔ اسے توجہ کی ضرورت تھی۔ آئیوان نیلئ کو نتاشا کے والدین کے پاس لے گیا۔ اس کی داستان سن کے ان دونوں کا دل بھر آیا اور انہوں نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ نتاشا کی والدہ اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ آئیوان نے نتاشا کے والدین کو کہا کہ وہ نتاشا کو بھی جا کے واپس لے آئیں۔ بالآخر انہوں نے آئیوان کی بات مان لی اور نتاشا سے اپنے اختلافات دور کر لئے۔ نیلئ اپنی بیماری کی وجہ سے زیادہ عرصہ نہیں نکال سکی اور اپنی ماں سے جا ملی۔ کہانی کے اختتام پہ آئیوان ایک مصنف بن جاتا ہے اور اس کا پبلشر اسے ایک کتاب لکھنے کا کہتا ہے۔

دوستوفیسکی کہ کہانی بالکل سادہ ہے اس کے کردار بالکل عام سے ہیں۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں، نہ کوئی بڑا فلسفی ہے، نہ کوئی بہت ذہین شخص ہے، نہ کوئی ایسا چالاک انسان ہے جس کی چالاکی کےآگے دنیا حیران ہو۔ یہ بالکل عام لوگوں کی عام سی کہانی ہے۔ اس ناول کے کردار وہ لوگ ہیں جنہیں زندگی میں دوسروں کے ہاتھ سے ذلت اٹھانی پڑی ہے۔ناول کا ہر کردار ٹھکرائے جانے کی تکلیف سے گزرا ہے۔ دوستوفیسکی کا نداز تصویر پینٹ کرنے جیسا ہے۔ وہ لوگوں کے کرداروں کو ان کی اچھائی اور برائی کے پیمانے میں نہیں تولتا، وہ جیسی حقیقت ہے اس کو ویسا ہی پیش کرتا ہے لیکن اس کا عام سا انداز اور عام سی کہانی ہی اس کی تحریر کو بہت خاص بنا دیتی ہے اور قاری کے دل پہ جا کے اثر انداز ہوتی ہے۔

کیا آپ اس تبصرے سے متفق ہیں۔آپ بھی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔

تشریف آوری کے لئے مشکور ہوں۔

اگلے ہفتے فرحت اشتیاق کی کتاب “میرےہمدم میرے دوست ” کا تعارف و تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔ان شاء اللہ

1 thought on “111- Humiliated and insulted by Fyodor Dostoyevsky”

Leave a comment