Book Review, Non-Fiction, Pakistani, Urdu

143-زلزلے ، زخم اور زندگی از ڈاکٹر آصف محمود جاہ

پاکستان میں 1935 سے 2015 تک آنے والے بڑے زلزلے اور عزم و ایثار کی ولولہ خیز سچی داستانیں

نام کتاب: زلزلے، زخم اور زندگی
مصنف: ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارۂ امتیاز)

صنف: نان فکشن، مضامین

قیمت:230 روپے

صفحات: 357

سن اشاعت: جنوری 2018
ناشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد

ISBN: 978-969-37-1034-2

Zalazaley, Zakham aur Zindagi by Asif Mahmood Jahپاکستان کی تاریخ میں 8 اکتوبر 2005 وہ دن ہے جب زمین تھر تھرا اٹھی تھی۔ زلزلے کے جھٹکوں نے کشمیر اور بالاکوٹ کے علاقوں میں تباہی پھیر دی تھی۔یہ تباہی اتنی شدت کی تھی اور نقصان اتنا زیادہ تھا کہ ان کو رپورٹ کرتے ہوئے ٹی وی کے نیوز کاسٹرز کی آوازیں کانپ رہی تھیں۔ گو کہ زلزلے کا مرکز کشمیر اور بالاکوٹ کے علاقے تھے لیکن اس کی شدت سے تمام پاکستانیوں کے دل لزر اٹھے تھے اور وہ فوری مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پاکستانی چاہے بیرون ملک مقیم تھے یا  اندرون ملک، ہر جگہ سے مدد کے لئے آگے آئے تھے۔ زلزلہ زدگان کے لئے خوراک، ضروریات کا سامان، دوائیں اور جس بھی طرح سے مدد ممکن تھی، اس سے کوئی پاکستانی پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ یہ موقع گو تکلیف دہ تھا لیکن پوری پاکستانی قوم نے اکھٹے ہو کے اس مشکل کا مقابلہ کیا تھا۔ ٹی وی پہ کمنٹیٹرز یہ کہتے پائے گئے کہ قوم میں 1965 کا جذبہ نظر آ رہا ہے۔

(ایک سائیڈ نوٹ کے طور پہ ہم یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایسے کچھ موقع آئے ہیں جب پاکستانی قوم کسی قدرتی یا غیر قدرتی وجہ کے سبب شدید صدمے، دکھ یا تباہی کے مرحلےسے گزری ہے۔ تاہم ان مواقع نے ہمارا بطور قوم مورال پست کرنے کی بجائے ہمارے اندر نئی روح پھونکنے کا کام کیا ہے، پوری قوم کو ایک نقطے پہ اکھٹا کیا ہے، ان تکلیفوں اور مشکلوں کو قوم کے ہر شخص نے محسوس کیا ہے۔ بڑی بڑی تقریریں، رہنما، اور دانشوروں کی بحثیں قوم کو یکجائی کے اس مقام پہ نہیں لے جا سکیں جہاں مشترکہ درد اور دکھ لے گئے۔ ان واقعات نے ہماری کمر توڑنے کی بجائے اس بھٹی کا کام کیا ہے جس نے پاکستانی قوم کو کندن کی طرح پکا دیا ہے۔ پاکستانی قوم ان تمام تجربوں سے گزرنے کے بعد سمجھداری، میچیوریٹی اور یکجایت کے جس مقام پہ ہے دنیا کی زیادہ تر اقوام اس سے کہیں پیچھے ہیں۔)

زلزلے، زخم اور زندگی، ڈاکٹر آصف محمد جاہ صاحب کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر آصف میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اس کے ساتھ ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن کسٹمر ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے بانی بھی ہیں۔ اس سوسائٹی کو 1998 میں قائم کیا گیا تھا جس کے مقاصد میں نادار اور غریب مریضوں کو مفت طبی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مہلک بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا شامل ہیں۔ اس تنظیم کا دائرہ کار صرف لاہور اور اس کے مضافات تک محدود نہیں بلکہ اپنی مسلسل کاوشوں کی وجہ سے اس کا دائرہ ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ زلزلوں سے لے کر سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے موقع پہ جب بھی ملک کو مدد کی ضرورت پڑی ہے ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ دور دراز علاقوں میں پہنچے ہیں اور وہاں طبی و دیگر امداد فراہم کی ہے۔ آپ کی خدمات کے نتیجے میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ یہ کتاب آپ کے مضامین پہ مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ان میں آپ نے زلزلوں کے دوران خدمت اور ایثار کی داستانوں کو یکجا کیا ہے جن میں مشکل اور نامساعد حالات میں آفت ذدہ علاقوں کی طرف فوری امدادی ٹیموں کی روانگی، مدد کے سامان کی تیاری اور متاثرین تک ان کو پہنچانے کے عمل کی تفصیلات موجود ہیں۔ بظاہر یہ مضامین ایک رپورتاژ کی طرح معلوم ہوتے ہیں لیکن اکثر مقامات پہ ایسی باریک تفصیل اور حساسیت مل جاتی ہے جو وہی شخص مہیا کر سکتا ہے جس نے امدادی کاموں میں خود حصہ لیا ہو، یہ باتیں محض ٹیلی ویژن پہ خبریں دیکھنے اور اخبارات پڑھنے سے نہیں ملتیں۔ ڈاکٹر آصف صاحب کے کریڈٹ پہ تیئس کتب موجود ہیں جن میں سے کچھ کے عنوانات ہیں؛ دوا، غذا اور شفاء، فیملی ہیلتھ، اللہ محمد اور بندہ، اللہ کعبہ اور بندہ وغیرہ۔

کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب لکھتے ہیں؛
”ڈاکٹر آصف جاہ کا کمال یہ ہے کہ جہاں انہوں نے زلزلہ ذدہ افراد پر ٹوٹنے والی قیامت، ان کی بلند حوصلگی اور مصیبت کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسے کو تاریخ کا حصہ بنایا ہے وہاں انہوں نے زلزلہ ذدہ وادیوں کی خوبصورتیوں کا ذکر بھی اس عمدہ طریقے سے کیا ہے کہ آدمی وہاں کی جنت نظیر فضاؤں میں کھو جاتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے زلزلوں کے علاوہ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنی اس کتاب میں 1935 میں کوئٹہ کے زلزلے کی جھلک بھی پیش کی ہے۔ حقیقت میں ”زلزلے، زخم اور زندگی“ غموں اور زخموں کی داستان کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے سچے انسانی جذبوں کی بھی کہانی ہے جو خدمتِ انسانی کے دلوں کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے“۔

کتاب کے آغاز میں عطا الحق قاسمی صاحب کے تاثرات بھی پیش کئے گئے ہیں، وہ لکھتے ہیں؛
”ہمارے درمیان کیسے کیسے عجیب لوگ موجود ہیں لیکن ہم ان سے بےخبر رہتے ہیں۔ ان دنوں ان لوگوں کو عجیب ہی سمجھا جاتا ہے جو دن رات نوٹ کمانے کی مشین بنے رہنے کی بجائے اپنے لئے انسانیت سے لبریز دھڑکتے ہوئے دل کی پکار سنتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ہیں جو ایک طویل عرصے سے انسانیت کی خدمت میں مشغول ہیں۔“

کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں،
”اس کتاب کا بنیادی مقصد سرفروشی، خدا خوفی اور دردِ لازوال کے جذبہ سے سرشار ساتھیوں کی سعی پیہم سے قارئین کو روشناس کروانا اور خلق خدا کو بےکسوں، بے نواؤں، مجبور و لاچار اور بےیار و مددگار انسانوں کی خدمت و تعاون کے لئے تیار و بیدار کرنا ہے“۔

اس کتاب کے کل چھے حصے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے؛
پہلا حصہ:
26 دسمبر 2015: کالام اور لاہور میں آنے والا زلزلہ
26 اکتوبر 2015: شانگلہ اور چترال کا زلزلہ
سیلاب، پتھروں اور خوابوں کی وادی کیلاش
دوسرا حصہ:آواران، بلوچستان اور پاکستان؛
24 دسمبر 2013 آواران کا زلزلہ
تیسرا حصہ: زلزلہ، زیارت اور زندگی
29 اکتوبر 2008، زیارت میں زلزلہ
چوتھا حصہ: زلزلہ، زخم اور زندگی
08 اکتوبر 2005؛ آزاد کشمیر اور بالاکوٹ میں زلزلہ
پانچواں حصہ:
30 مئی 1935: کوئٹہ کا قیامت خیز زلزلہ
چھٹا حصہ: زلزلے کیوں آتے ہیں؟

کتاب میں مضامین نئے سے پرانے کی ترتیب میں پیش کئے گئے ہیں یعنی دسمبر 2015 کے زلزلے کے مضامین کتاب کے پہلے حصے میں شامل ہیں اور 1935 کے کوئٹہ کے زلزلے کا احوال کتاب کے پانچویں باب میں شامل ہے۔ یہ مضامین سادہ زبان اور سلیس انداز میں لکھے گئے ہیں۔ غیر ضروری لفاظی سے گریز کیا گیا ہے اور افسانوی فضا نہیں پیدا کی گئی ہے۔ جس کے باعث یہ عام فہم ہیں اور قاری کو کتاب کے ساتھ لنک بنانے میں دشواری نہیں ہوتی۔ ان مضامین میں زلزلہ ذدہ اور آفت ذدہ علاقوں میں امدادی کاروئیوں کی داستان رقم ہے جس میں سفری مشکلات کے احوال سے لے کر، امداد تقسیم کرنے کے طریقہ کار تک کی وضاحت موجود ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی ہیلتھ کئر ٹیم کی خدمات صرف طبی شعبوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں متاثرین کے لئے ضروری امدادی سامان مہیا کرنا، قربانی کرنا، اور ان علاقوں کی از سر نو تعمیر میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔  زلزلوں کے حوالے سے کتاب کے ابتدائی باب میں مصنف کا کہنا ہے کہ اکثر زلزلے مہینے کی 26 تاریخ کو وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

”عیسوی تاریخ کی 26 تاریخ پاکستان سمیت دنیا بھر میں زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے۔ 26 تاریخ کو 11 زلزلے اور ایک سونامی نے لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیلتے ہوئے کروڑوں کو معذور کر دیا، خوفناک زلزلوں اور سونامی کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ سب سے زیادہ 26 تاریخ کو آئے“۔

امدادی کاموں کے لئے ڈاکٹر صاحب کو مشکل ترین اور دور دراز علاقوں تک سفر کرنا پڑا جہاں قدرتی آفات کے باعث سفری رستے اور زمینی سڑکیں بھی ختم ہو گئی تھیں، ایسے علاقوں تک انسانی رسائی بہت مشکل تھی کجا کہ وہاں امدادی سامان پہنچایا جائے تاہم ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم نے کئی دفعہ پیدل چل کے، خچروں، گدھوں پہ سواری کرکے ان علاقوں تک رسائی حاصل کی اور امدادی کاروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ علاقے اتنے دور دراز اور پس ماندہ تھے کہ وہاں کے باشندے اردو زبان سے بھی ناواقف تھے۔ امدادی کام کے لئے ڈاکٹر صاحب سوات، کالام، بحرین، اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک بھی گئے ایسے میں ان مضامین میں جہاں رستے کی مشکلات کا ذکر ملتا ہے وہیں اس علاقے کے لوگوں کی مہمان نوازی اور روایات کی تفصیلات بھی موجود ہیں جنہوں نے سازگار حالات نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی مہمان نوازی کی روایت کو برقرار رکھا۔ ان مضامین میں جا بجا یہ ذکر ملتا ہے کہ پنجاب کے علاقے سے آئی ہوئی امدادی ٹیموں کی موجودگی سے اس علاقے کے لوگوں میں پنجاب اور دیگر پاکستان کے لئے محبت کے جذبات پیدا ہوئے اور انہیں احساس ہوا کہ ان پہ آئی آفت کے وقت ملک کے دیگر حصوں نے انہیں ان کے حال پہ نہیں چھوڑا بلکہ ان کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ کتاب میں امدادی کاموں کی کئی تصاویر موجود ہیں جو مصنف کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی ہیں۔

کتاب میں مصنف نے جہاں امدادی کاروائیوں کا ذکر کیا ہے وہیں مقامی لوگوں کے حوصلے اور امداد باہمی کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ یہ باہمت لوگ مشکل کا شکار ہونے کے بعد بیرونی امداد کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے نہیں بیٹھے رہے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت کام میں جٹ گئے۔ چترال کے سیلاب کے واقعے کے بعد مصنف کا کہنا ہے؛
”سیلاب نے سارا رستہ ختم کر دیا تو آس پاس کے گاؤں کے سب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت متبادل رستہ بنانا شروع کر دیا۔ جونہی اعلان ہوتا ہر گاؤں سے لوگ اپنے اوزاروں کے ساتھ آتے اور کام میں لگ جاتے۔ جب تک ایف ڈبلیو او والے آئے عارضی رستے بن چکے تھے اور آمد و رفت جاری ہو گئی تھی“۔
کتاب میں اس بات کا بھی ذکر جگہ جگہ موجود ہے کہ کس طرح مشکل گھڑی آنے پہ مخیر حضرات دل کھول کے امداد فراہم کرتے ہیں اور امداد کے کام کے لئے درکار ہر چیز الحمد للہ دستیاب ہو جاتی ہے۔ یقیناً ان مخیر حضرات کو ان کا اجر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ملے گا تاہم اس میں ڈاکٹر صاحب کی قیادت اور ٹیم پہ بھروسہ بھی مضمر ہے۔ کتاب میں اسرار بخاری صاحب کا ایک تجزیہ درج ہے؛
”اگر میرے لوگوں کو یہ علم ہو جائے کہ ان کی دی ہوئی رقم صحیح جگہ خرچ ہو گی یا واقعی مستحقین تک پہنچے گی تو وہ مقدور بھر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں“۔
ہم بھی اس بات سے متفق ہیں، الحمد اللہ پاکستانی قوم مدد کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی لیکن یہ تسلی ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی دی گئی مدد مستحق فرد تک ضرور پہنچے گی تاکہ مدد کرنے والے کا مقصد پورا ہو سکے۔ ایسے میں مخیر حضرات کا بھروسہ جیتنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ مدد کے لئے آمادہ ہو سکیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کامیابی ہے کہ وہ یہ بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہے ہیں اس لئے انہیں بڑے بڑے امدادی پراجیکٹس کے لئے امداد اور تعاون حاصل رہا ہے اور ایسا ان کی انتھک محنت، فیلڈ ورک اور سخت مشکل حالات میں مستحقین تک پہنچنے کے عزم و ہمت کے باعث ممکن ہو سکا ہے جس کی ایک گواہ یہ کتاب بھی ہے۔

امدادی کاروائیوں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک بھی گئی۔ کتاب میں بلوچستان کے کئی ایسے علاقوں کا ذکر ہے جن کے نام بھی انجان سے محسوس ہوتے ہیں۔ اور یوں یہ مضامین بلوچستان کے سفر نامے کا بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات اور سیکیورٹی مسائل کے باوجود بھی امدادی ٹیموں کا وہاں پہنچنا قابل قدر ہے اور وہ وہاں کے حالات کی فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ بلوچستان کے حالات کے تناظر میں مصنف ایک جگہ لکھتے ہیں؛
”زلزلہ ذدہ علاقوں میں جا کر متاثرین کی حالتِ زار دیکھ کر، ان کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ یہاں ناراضگی، غصہ بےوجہ نہیں۔ یہاں محرومی ہے، بھوک ہے۔ علاقے میں کوئی سہولت نہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ میڈیکل کی کوئی سہولت نہیں۔ مالار یا ڈنڈور میں زچگی کے دوران اگر کسی کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو آواران پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اکثر عورتیں اسی حالت میں بچے سمیت فوت ہو جاتی ہیں۔ بچے اور عورتیں سہمے ہوئے ہیں۔ جسمانی بیماریوں کے علاوہ نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں“۔

مصنف مزید ایک جگہ لکھتے ہیں؛
”زلزلہ ذدہ علاقوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ خوف ذدہ اور ڈرے ہوئے بچوں کو جب چھوٹے چھوٹے تحائف ملتے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے“۔
مصنف کی یہ بات دل کو چھو جاتی ہے  یہ بات وہی شخص بیان کر سکتا ہے جس نے زلزلہ ذدہ بچوں سے ملاقات کی ہو اور ان کے خوف و ڈر کو دور کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس ضمن میں مصنف اور ان کی ٹیم کی کاوش کے ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان علاقوں کے بچوں کا خوف دور کرنے کی کوشش کی اور انہیں یہ احساس دلایا کہ حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں وہ اکیلے نہیں اور امید کی کرن موجود ہے۔
کتاب کے کچھ مضامین مصنف کے تحریر کردہ نہیں بلکہ ان کے دیگر ساتھیوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ مضمون ”بنوں سے آواران“ جو بنوں کے ہیڈ ماسٹر ظہور خان صاحب نے تحریر کیا ہے اور اپنے تجربات بیان کئے ہیں۔

اکتوبر 2008 میں بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے متعلق مصنف لکھتے ہیں؛
”30 اکتوبر 2008 کو شام کے وقت کوئٹہ میں پھر شدید زلزلہ آیا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق کوئٹہ کے گرد بجلی چمکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ درخت ہل رہے تھے۔ طوفان کا سا سماں تھا۔ ہزاروں گھر متاثر ہوئے“۔

بلوچستان میں امدادی کاروائیوں کے دوران مصنف کو قائدِاعظم ریزیڈینسی دیکھنے کا موقع بھی ملا جس کی تفصیلات بھی کتاب کا حصہ ہیں اور اسے ایک سفر نامے کا روپ بھی دے دیتی ہیں۔ بلوچوں کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛
”بلوچستان کے زلزلہ زدگان کے لئے جوں ہی ہماری ٹیم امدادی اشیا کے ساتھ بلوچستان کے علاقے رکھنی ضلع بارکھان میں داخل ہوئی تو علاقے کے لوگوں نے خوش آمدید کہا۔ ٹیم جہاں جہاں سے گزرتی، لوگ اہل پنجاب کی کھلے دل سے تعریف کرتے اور چائے اور قہوہ پیش کرتے۔ کسی دکان دار نے چائے اور قہوے کے پیسے نہ لئے۔ زیارت میں بھی زیارت کے باسیوں نے مثالی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔ جس دکان پر جاتے بڑی محبت سے پیش آتے اور چائے اور قہوہ پیش کرتے۔ جس جگہ کیمپ لگایا فوراً چائے اور قہوے سے بھری کیتلیاں چھوٹی پیالیوں کے ساتھ آ جاتیں، جن کے پینے سے دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی۔ اس کے علاوہ جہاں بھی گئے بلوچ لوگ گرم جوشی سے پیش آئے، خوش دلی سے استقبال کیا اور ہمارے راستے میں آنکھیں بچھائیں“۔

بلوچستان کے زلزلہ ذدہ علاقوں میں غیر ملکی امدادی کاروائیوں کا بھی ذکر موجود ہے مصنف لکھتے ہیں؛
”شیلٹرز ہوم کی تعمیر کے سلسلے میں برادر ملک ترکی اس دفعہ بھی بازی لے گیا ہے۔ وام میں ترکی کے دوستوں نے شیلٹرز کی ایک خوبصورت وادی بنا دی ہے۔ یہ گھر دور سے بڑے خوبصورت لگتے ہیں جب کہ اندر ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ جہاں شیلٹرز نہیں ہیں وہاں روٹری والوں نے سردی کے لحاظ سے بڑے خیمے مہیا کئے ہیں۔ انگلینڈ سے کوئی برطانوی یہاں ایک کمرے کے بیس گھر تعمیر کروا رہا تھا۔“

کتاب کے پانچویں باب میں 1935 کے کوئٹہ کے زلزلے کا احول پیش کیا گیا ہے جو کہ اس وقت کے ایک بزرگ حاجی محمد اسمٰعیل صاحب کی آپ بیتی میں تحریر ہیں۔ اس آپ بیتی کے چیدہ چیدہ واقعات کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

کتاب کا چھٹا باب اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لئے مصنف نے  سائنسی تحقیق سے لے کر قرآنی آیات میں پیش کردہ نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ اختتام میں دنیا میں اب تک آنے والے بڑے زلزلوں کا ایک ٹیبل بھی پیش کیا گیا ہے۔ نیز زلزلے کے دوران کس طرح کے حفاظتی اقدامات اپنائے جانے چاہیں ان کا بھی ذکر موجود ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی یہ کتاب زلزلے، زخم اور زندگی بظاہر سادہ نظر آنے والے مضامین ہیں لیکن اپنے اندر یہ معلومات کا خزانہ ہیں جو ڈاکٹر صاحب اپنے سادہ انداز میں قاری تک منتقل کرتے جاتے ہیں۔ کسی بھی آفت کے موقع پہ ٹی وی پہ نیوز پیش کی جاتی ہے کہ امدای کاروائیاں جاری ہیں۔

یہ امدای کاروائیاں کیسے انجام پاتی ہیں؟

امدادی سامان کہاں سے آتا ہے؟

کون لوگ ہوتے ہیں جو ان امدادی کاروائیوں کا حصہ بنتے ہیں اور مستحقین تک امداد پہنچاتے ہیں؟

ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور دشوار گزار رستوں سے گزر کر آفت زدہ علاقوں میں پہنچنے کی کیا سبیل ہو؟

انجان علاقے میں انجان زبان کے ساتھ یہ مددگار کس طرح کام کرتے ہوں گے؟

ایسے علاقوں میں جہاں سیلاب اور زلزلوں کے باعث تباہی پھیلی ہوئی ہے وہاں ان مدد گاروں کے رہنے، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا کیا انتظام ہوتا ہوگا؟

مواصلاتی رابطوں کی عدم موجودگی میں اور شورش ذدہ علاقوں میں کام کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کن خدشات سے دوچار رہتے ہوں گے؟

ان تمام باتوں کی تفصیل اس کتاب میں ملتی ہے۔ دور دراز علاقوں کے موسم اور زمینی حالات کے ذکر کے باعث یہ ہلکا پھلکا سفر نامہ بھی بن سکتی ہے۔ کتاب کی خاص بات بلوچستان کے دور استادہ علاقوں کے احوال کا ذکر ہے جو معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ اس کتاب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ انسانیت پہ یقین دلاتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانیت زندہ ہے، مشکل کی گھڑی جب بھی آئے گی (اللہ نہ کرے) تو ہم اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ یہی اس کتاب کا پیغام ہے اور امید کی وہ کرن ہے جو اس کتاب کے مطالعے سے دل میں پیدا ہوتی ہے کہ مشکلات گرچہ بہت ہو سکتی ہیں، ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مشعلیں تھامے کھڑے ہیں اور روشنی اور امید کی کرنیں پھیلا رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہی اقبال کے شعر کی تشریح ہیں؛
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہم ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے انسانیت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی صحت و ذرائع میں برکت دے تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اپنا کام جاری رکھیں۔ آمین۔کتاب پیپر بیک کور کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور خاصی کم قیمت ہے۔ کتاب میں شامل کی گئی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ ہیں اور املاء کی غلطیاں موجود نہیں ہیں۔ 

کیا آپ اس تبصرے سے متفق ہیں۔آپ بھی اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔

تشریف آوری کے لئے شکر گزار ہوں۔ ہمیشہ خوش رہئے۔

نوٹ: بلاگ میں نیلا رنگ  کتاب سے لئے گئے اقتباسات کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

Leave a comment