حجرت حبشہ از عبدالستار خان
(اسلامی دنیا کے پہلے اہم واقعے کی مستند تاریخ)
واقعہ ہجرت حبشہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے اور ہر مسلمان اس سے یقیناً واقف ہے۔ اسلامیات کے نصاب میں اس واقعے کے بارے میں ایک مضمون موجود ہے جس کے باعث بچپن سے ہی اس واقعے کی آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس مضمون میں نجاشی بادشاہ کے مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور حضرت جعفر طیار کی دربار نجاشی میں تقریر کا احوال درج ہے۔ یہاں ہم اس بات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہجرت حبشہ کی ابتدائی معلومات بچپن میں ہی حاصل ہو جاتی ہیں وہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں مزید اضافہ نہیں ہوتا اور واقعے کی تفصیلات غیر معلوم ہی رہ جاتی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک نہ ہوتا اگر ہمارے ہاتھوں میں جناب عبدالستار صاحب کی لکھی کتاب حجرت حبشہ نہ آئی ہوتی اور ہمیں اس کے مطالعے کا موقع نہ ملا ہوتا۔
مصنف نے کتاب کا پہلا جملہ یوں لکھا ہے،
“ہجرت حبشہ اسلامی تاریخ کا وہ باب ہے جس کی تفصیلات تاریخ دانوں پہ آج تک قرض ہے۔ تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس مبارک ہجرت کی اجمالی کیفیت ضرور ہے مگر اس کی تفصیلات ناپید ہیں۔ یہی حال عربی ذخائر کا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ذخائر کا کیا حال ہوگا۔“
مصنف اپنے دعوے میں درست ہیں اور حقیقتا اردو میں ہجرت حبشہ کے موضوع پہ کتب موجود نہیں۔ اس موضوع پہ یہ پہلی کتاب ہے جو ہمارے سامنے آئی ہے۔ عبدالستار صاحب کی لکھی یہ کتاب ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب ہے جس میں مصنف نے مختلف عربی اور افریقی حوالوں کی مدد سے اپنے خیالات پیش کئے ہیں۔ انہوں نے جہاں جہاں اپنی رائے دی ہے وہیں اس کے بارے میں دلائل دے کر ساتھ ہی شافی بحث بھی کی ہے جو ایک تشنہ ذہن کی پیاس بجھانے میں کامیاب رہی ہے۔ مصنف نے بڑے جامع انداز میں ہجرت حبشہ کی تاریخ پیش کی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے قاری کے سامنے کئی ایسے سوالات پیش کئے ہیں جن کے متعلق بحث اور معلومات اردو ذبان میں موجود نہیں۔ مصنف کے جوابات میں ان کی عقیدت بھی چھلکتی ہے اور ایک دیانت دار محقق کا رنگ بھی نظر آتا ہے جس کی تحریر میں جابجا مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی حوالے ملتے ہیں۔ مصنف کو یہ کتاب لکھنے کی تحریک کیونکر ہوئی اس بارے میں وہ رقم طراز ہیں،
“جدہ میں ہمارے قدیم محلے کا نام “البغدادیہ“ ہے۔ اس کے ساتھ عماریہ محلہ ہے جہاں اماں حوا کا قبرستان ہے۔ دونوں محلوں کے درمیان ایک سڑک ہے جو بغدادیہ کو عماریہ سے الگ کرتی ہے۔ سڑک کے اس پار جہاں عماریہ ہے وہاں یہ قبرستان واقع ہے اور سڑک کی دوسری طرف جہاں بغدادیہ ہے وہاں شاورما کی مشہور دکانیں ہیں۔ شاورما کی دکانوں کے پیچھے جو بلاک ہے اسے “حارۃ الجمامہ“ کہا جاتا ہے۔ یعنی حجوم خاندان کا محلہ۔ جس سے متصل جو محلہ ہے اسے “حارۃ الحبوش“ کہتے ہیں۔ یعنی حبشیوں کا محلہ ہے۔ بچپن میں اس محلے میں کئی لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ ان لڑکوں میں سے بعض کے ساتھ بعد میں گہری دوستی ہوگئی اور پھر ان کے توسط سے حبشیوں کی طرزِ زندگی اور عادات و اطوار کا علم ہوا۔ یہ لڑکے اکثر و بیشتر فخریہ انداز میں کہتے تھے کہ ہمارے آباء و اجداد نے صحابہ کرام رض کو پناہ دی تھی۔
Continue reading “138- حجرت حبشہ از عبدالستار خان”