Islam, Non-Fiction, Pakistani, Religion, Science, Urdu

033۔ برمودا تکون اور دجال از مولانا عاصم عمر

برمودا تکون اور دجال از مولانا عاصم عمر

مصنف: مولانا عاصم عمر
صفحات: 271
قیمت: 170 روپے
ناشر:الھجرہ پبلیکیشنز، کراچی۔

قرب قیامت کے موضوع میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لئے مولانا عاصم عمر کا نام نیا نہیں۔ قرب قیامت، دجال، امام مہدی جیسے موضوعات پہ آپ کی کتب منظر عام پہ آ چکی ہیں اور بہت مقبول ہوئی ہیں۔ کتابستان کا آج کا موضوع آپ کی لکھی ہوئی کتاب “برمودا تکون اور دجال” ہے۔

جیسا کہ کتاب کے نام سے ہی واضح ہے یہ کتاب برمودا تکون اور دجال کے مابین تعلق کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ برمودا تکون یا برمودا ٹرائی اینگل سے زیادہ تر لوگ واقف ہیں۔ یہ سمندر کے درمیان مثلث نما وہ حصہ ہے جہاں سے گزرنے والے بحری یا ہوائی جہاز کسی انجانے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہو پاتی اور نہ ہی تباہ شدہ جہازوں کا کوئی حصہ یا مرنے والوں کی لاشیں ہی مل پاتی ہیں۔ اسی وجہ سے برمودا تکون کو ایک مسٹری یا معمہ سمجھا جاتا ہے جس کی آج تک وضاحت نہیں ہو پائی۔ یہ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بے شمار کتب لکھی گئی ہیں، ڈاکو مینٹری فلمیں بنائی گئی ہیں، سائنسدانوں نے ان حادثوں اور گمشدگیوں کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں، تاہم ابھی تک کسی حتمی نتیجے پہ نہیں پہنچا جا سکا۔ موجودہ دور کے معموں میں برمودا تکون ایک مشہور معمہ ہے جو ہنوز حل طلب ہے اور نا جانے کب تک رہے گا۔

دجال کا نام مسلمانوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ دجال کا ذکر احادیث میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا دجال اور اس سے منسلک فتنے کا ذکر کیا ہے۔ قیامت سے پہلے جس فتنے سے سب سے زیادہ ڈرایا اور خبردار کیا گیا ہے وہ دجال کا فتنہ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مفکرین اور علماء نے مسئلہ دجال پہ بہت غور و خوص کیا ہے۔ وہ زمانے کے بدلتے چلن اور تبدیلیوں کو ہمیشہ ہی گہری نظر سے دیکھتے آئے ہیں تاکہ دجال کی آمد اور اس کے فتنے کو پہچان سکیں۔ مولانا عاصم عمر صاحب کی لکھی ہوئی کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مولانا عاصم عمر صاحب نے اس کتاب کی بنیاد مسلمان محقق محمد عیسیٰ داؤد مصری کی تحقیق پہ رکھی ہے جنہوں نے دجال، اڑن طشتریوں اور پرمودا تکون پہ بہت تحقیق کی ہے اور اپنی بات کو احادیث کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق برمودا تکون اور دجال کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور برمودا تکون دراصل دجال کا مسکن ہے۔ اس سوچ کی بنیاد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیطان کا تخت پانی پہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ برمودا تکون خشکی کا نہیں بلکہ سمندر کے ایک حصے کا نام ہے۔

یہ کتاب چار حصوں پہ مشتمل ہے۔ پہلے حصے کا پہلا باب جاپانی ساحلوں کے پاس پائی جانے والی تکون جسے شیطانی تکون کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، کے تعارف و معلومات پہ مبنی ہے۔ دوسرا باب برمودا تکون کے بارے میں ہے۔ برمودا تکون میں پیش آنے والے حادثوں کی تفصیلات پہ مبنی ہے۔ برمودا تکون کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں اور ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسرا باب اڑن طشتریوں کے بارے میں ہے۔ اڑن طشتریاں سائنس فکشن کا ایک مشہور جز ہیں۔ آج بھی دنیا کے مخلتف گوشوں میں اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے واقعات منظر عام پہ آتے رہتے ہیں۔ تاہم مصنف نے اڑن طشتریوں کے عام مفہوم سے ہٹ کے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے شیطان کی سواری کے طور پہ۔ مصنف کے نزدیک ان اڑن طشتریوں کے ذریعے دجال اپنے کارندوں کو بھیج کے دنیا سے رابطے میں ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ دجال سے متعلق ہے۔ فتنہ دجال کا بیان پیش کیا گیا ہے اور دجال کے خروج کے وقت کی علامات کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد موجودہ حالات کو دجال کے خروج کے وقت کے واقعات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار، اقوام متحدہ، پروپیگنڈہ مہمات، مشترکہ کرنسی، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر، این جی اوز کے کردار، نوسٹرا ڈیمس کی پیشن گوئیاں، عالمی جنگوں کے بارے میں تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے اور ان کے دجال سے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔

کتاب کا تیسرا حصہ دجال کی آمد کے بعد پیش آنے والے واقعات کے ذکر پہ مبنی ہے اور اس کے بارے میں عالمی ردعمل پہ  مصنف نے اپنا خیال پیش کیا ہے۔ کتاب کا چوتھا حصہ ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں پہ روشنی ڈالتا ہے کہ فتنہ دجال کے دور میں ایک مسلمان پہ کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان سے کس طرح بہرہ ور ہوا جا سکتا ہے۔

کتاب کا انداز عام فہم اور تبلیغی ہے۔ مصنف نے اپنے نقطہ نظر کو کھل کے بیان کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکا ہے دلائل اور حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں تمام واقعات پیش کئے ہیں۔ تاہم کئی جگہ مصنف اپنے خیالات میں اتنی شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ قاری کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے یا پھر شاید یہ موضوع ہی ایسا ہے۔ بہت سارے لوگ اس دجال اور برمودا تکون کے باہمی تعلق کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں اور اسے مصنف کی ذہنی اختراع قرار دے دیتے ہیں۔ تاہم ہماری رائے میں کتاب پڑھے بغیر ہی صرف عنوان کی بنیاد پہ اس کو رد کر دینا مناسب فعل نہیں۔ مصنف نے جو بات بیان کی ہے اس کے حق مین اپنے دلائل بھی دئے ہیں، انہیں پرکھے بغیر کتاب کو رد کر دینے کا خیال بھی انتہا پسندانہ ہی ہے۔

قرب قیامت اور خروج دجال کے موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ مصنف کے نظرئے سے متفق ہونا یا نہ ہونا قاری کا اپنا فعل ہے تاہم مختلف نظریات پڑھنے اور پرکھنے سے ذہن کھلتا ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

کیا آپ اس تبصرے سے متفق ہیں۔اس کتاب کے بارے میں تبصرہ کریں ۔

اگر آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے تو اسے 1 سے 5 ستاروں کے درمیان ریٹ کریں۔

تشریف آوری کے لئے مشکور ہوں۔

اگلے ہفتے مسعود الحسن ضیاء کی کتاب “قدم بہ قدم” کا تعارف و تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔ان شاء اللہ۔

4 thoughts on “033۔ برمودا تکون اور دجال از مولانا عاصم عمر”

Leave a reply to syed khadim Cancel reply